ترکی اور خلافت عثمانیہ کی بحالی
Turkey aur Khilafat osmania ki bahali
کیا ترکی خلافت عثمانیہ کو دوبارہ زندہ کر رہا ہےٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بعد جہاں عالمی سیاست میں ہلچل مچی وہیں عالم اسلام کے سیاسی منظر نامے میں زبردست تبدیلی دیکھنے کو ملی. اس کا اندازہ اقوام متحدہ میں ترکی پاکستان اور یمن کی پیش کردہ قرارداد پر امریکی حزیمت اور ترکی میں او آئی سی کے ہنگامی اجلاس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.
ایک طرف دنیا امریکہ فیصلے کے خلاف اکٹھی ہوئی تو دوسری طرف اسلامی دنیا ترقی کی قیادت میں بیت المقدس کی حفاظت کے لیے جمع ہوئی کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ترکی کو عالم اسلام میں قائد اور رہبر کی حیثیت حاصل ہے عالم اسلام کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ترکی اپنا قائدانہ رول ادا کر رہا ہے
Join Us On Telegram
چنانچہ عالم اسلام کو متحد کرنے کے لیے ترکی سفارتی اور اقتصادی سطح پر اسلامی ممالک کے ساتھ زبردست قسم کے معاہدے کرنے کے ساتھ اسلامی ممالک کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہے جس کا اندازہ قطر, مصر, بحرین, عمارات اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش کے دوران ترکی کے قائدانہ کردار سے لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ترکی نے ان ممالک کو بڑی لڑائی سے روکا۔
بلکہ ترک صدر نے اپنے حالیہ بیان میں دو ٹوک کہا ہے کہ مغرب مسلمانوں میں تفریق کے لیے مجھے سنیوں کالیڈر
کہتا ہے حالانکہ ہمارے نزدیک سب مسلمانوں کا ایک دین اسلام ہے بس دوسری طرف قطر صومالیہ میں ترک فوجی اڈے کھولنے کے اب بحر احمر میں سوڈان کے بیس کلومیٹر پر محیط سواگن نامی جزیرے پر ترکی بیرونی دنیا میں اپنا تیسرا فوجی اڈہ کھولنے جا رہا ہے ۔
ترک صدر رجب طیب اردگان کے حالیہ سوڈان کے دورے کے موقع پر ترکی اور سوڈان میں اکیس معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں فوجی اڈہ نہایت اہمیت کا حامل ہے یہ وہی فوجی اڈا ہے جو خلافت عثمانیہ کے دور میں خلافت عثمانیہ کا بحر احمر پر سب سے بڑا فوجی اڈا کہلاتا تھا جسے انیس سو سالہ میں برطانیہ نے بعض غداروں سے مل کر یہ فوجی اڈا چھین لیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس فوجی اڈے کے بننے کے بعد بحر احمر پر ترکی کی بادشاہت قائم ہو جائے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انیس سو چھپن کے بعد
سوڈان میں یہ کسی بھی ترک صدر کا پہلا دورہ تھا۔ جسے مستقبل کی سیاست میںگیم چینجرسے تعبیر
کیا جا رہا ہے۔ سوڈان اور ترکی کے نئے تعلقات کو اس لیے بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ کہ سوڈان شروع سے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم رکھتا ہے۔ اور سوڈان کی سیاست میں اسے سعودی عرب کا بے پناہ اثر و رسوخ ہے۔
یہ وجہ ہے کہ یمن جنگ میں سوڈان کی فوج بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے دوسری طرف مصر کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات کافی بہتر ہو رہے ہیں۔ ترکی کے عالم اسلام میں بڑھتے ہوئے قائدانہ roll کی وجہ سے بعض خلیجی ممالک انتہائی پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے ایک ری ٹویٹ کے ذریعے ترکی کو اشتعال دلانے کی کوشش کی.
ٹویٹ ایک عراقی شخص کی تھی جس میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر فخرالدین پاشا کے بارے میں نازیبا جملے لکھے گئے تھے. انہیں لوٹ مار کرنے والا گورنر قرار دیتے ہوئے اردگان کو طعنہ دیا گیا تھا کہ ان کے آباء و اجداد تو ایسے تھے حالانکہ یہ بات خلاف حقیقت ہے. یہی وجہ ہے کہ ترکی کی طرف سے اس کا سخت جواب دیا گیا اور ترکی میں متحدہ عرب امارات کو جانے والی ایک سڑک کو مدینہ منورہ کے گورنر فخرالدین پاشا سے منسوب کیا گیا.
اس کے علاوہ خود ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھارتی وزیر خارجہ کے جواب میں ٹویٹ کی جس میں انہوں نے اس قسم کی باتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تعلق خراب ہوں گے۔ ادھر سوڈان سمیت دیگر افریقی ممالک میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر سعودی عرب بھی پریشان دکھائی دیتا ہے. یہی وجہ ہےکہ سعودی عرب کےمیڈیامیڈیا پر ہیش ٹیگ کے ذریعے ترکی مخالف سوچ پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی تھی.
لیکن ترکی کی فراست کو داد دینی پڑے گی کہ ایک طرف ترک صدر سوڈان سمیت چار ممالک کے افریقی دورے پر گئے. دوسری طرف سعودی عرب کو شکوک و شبہات دور کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لیے ترک وزیراعظم, دیگر وزراء سمیت سعودی عرب بھیجے گئے جہاں انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے خصوصی ملاقاتیں کیں اور اسلامی دنیا بالخصوص خلیجی ممالک اور ترکی کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے اور بے جا شکوک و شبہات اور اختلاف کو ختم کرنے پر اتفاق کیا.
اس کے علاوہ ترک وزیر خارجہ نے سوڈان کے دورے کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ کہنا کہ ترکی صرف قطر اور ایران کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے. اور ان کن ممالک کا ایک بلاک ہے یہ بات قطعا غلط ہے. بلکہ کے سارے اسلامی ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات اور مراسم ہیں جو مزید مضبوط اور مستحکم ہو جائیں گے. حقیقت بھی یہی ہے کہ ترکی ساری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے. جس فراست اور تدبیر سے ترکی آگے بڑھ رہا ہے.
اس کا اندازہ ترکی کے مخالف اماراتی وزیر خارجہ کی ٹویٹ کے بعد ترکی کے عمل سے لگایا جا سکتا ہے. کون نہیں جانتا کہ عرب امارات سعودی عرب, مصر اور بحرین نے قطر کے ساتھ صرف ایک مبینہ ٹویٹ اور ایک خبر کی وجہ تعلقات ختم کر لیے جو قطر کے بادشاہ کی طرف منسوب کی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے تردید بھی کی تھی ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کی یہی وہ سوچ ہے جو خلافت عثمانیہ کے تمام مضبوط بادشاہوں کی تھی۔
چنانچہ خلافت عثمانیہ کے آخری مضبوط بادشاہ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے باوجود غداروں کی غداری کی امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے بے پناہ کوششیں کیں جس کے لیے انہوں نے ترکی سے حجاز تک ریل گاڑی منصوبہ بنایا جسے وہ دیگر اسلامی ملکوں تک پھیلانا چاہتے تھے.
یہ وہ عثمانی بادشاہ تھے جنہوںنے ہندوستان کے مسلمانوں کو جو اس وقت انگریز کے قبضے میں آ چکے تھے ان کو خلافت عثمانیہ کے ساتھ جوڑنے کے لیے وفود کے ذریعے بڑی کوششیں کیں کیوں کہ وہ اچھی طرح یہ جانتے تھے کہ یہودیوں کی ایک عالمی حکومت کے قیام کے لیے دنیا پر نیا سیاسی نظام لاگو کیا جا رہا ہے جس میں خلافت عثمانیہ اور دیگر اسلامی حکومتوں کو کاٹ کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ وہ ہمیشہ باہمی اختلافات میں الجھ کر ایک دوسرے سے لڑتے رہیں.
ترکی کی جانب سے ایک بار پھر امت مسلمہ کو متحد کرنے کی یہ کوشش نہایت اہمیت کی حامل اور وقت کی اشد ضرورت ہے اس وقت اگرچہ استعماری دور ختم ہو گیا ہے لیکن استعماری سوچ تاحال برقرار ہے جو اب نئے انداز سے مسلمانوں کو باہم لڑانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے چنانچہ اسلامی دنیا کو فرقہ واریت دہشت گردی عصبیت قومیت اور وطنیت کے بدبو دار نعروں میں الجھا کر اسلامی دنیا کو مزید تقسیم کرنے اور ان پر قبضہ جمانے کی مہم چلائی جا رہی ہے.
چنانچہ عراق, شام, یمن, لیبی اور افغانستان کو بربریت کا نشانہ بنانے کے بعد استعماری غارت گروں کا اگلا ہدف مشرق وسطی کے اہم خلیجی ممالک کو باہم لڑانا اور ان کو تقسیم کرنا ہے. اسرائیل کے جھنڈے میں موجود دو نیلی لائنیں دریائے فرات اور دریائے نیل کے لیے رکھی گئی ہیں. جس کا مطلب یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل نامی منصوبے میں مصر, سوڈان, صومالیہ اور عراق اور شام وغیرہ کو شامل کیا جائے گا.
جبکہ پوری دنیا پر یہودیوں کی عالمی حکومت میں ان ممالک کے علاوہ باقی اسلامی دنیا کے ممالک کو تدریجا شامل کیا جائے گا۔ جن پر قبضہ کرنے کے لیے یہودی مختلف حیلے بہانوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری اسلامی دنیا یہودی غارت گروں کے اس قاتلانہ منصوبے پر غوروفکر کریں۔
اور ہر مسلمان اپنی طاقت اور وسعت کی بقدر امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوشش کرے جو کوئی امت مسلمہ کا اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرے اسے امت کا مشترکہ دشمن سمجھ کر اس کے خلاف آوازاٹھائی جائے۔ پاکستان اور ترکی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ اسلامی دنیا کے یہی دو ملک ہیں جو عسکری اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہیں جنہیں اسلامی دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے
Turkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahaliTurkey aur Khilafat osmania ki bahali