سلطان مراد اوّل
Sultan Murad 1 (Part 2)
. پوپ اور باپ انجم نے بلغاریہ, سربیا, ہنگری اور ولاچیا کے فرماں رواںوں کو حکم دیا کہ وہ مشترکہ طاقت سے ترکوں کو یورپ سے نکال باہر کریں. تیرہ سو اکہتر عیسوی میں اس معاہدے میں شریک تمام ملکوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا. جس کی قیادت سربیا کا بادشاہ کر رہا تھا.
جس کی تعداد بعض مؤرخین کے نزدیک بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ساٹھ ہزار تھی. یہ لشکر دریائے مرٹساء کے پاس چیئرمین کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا. جس وقت یہ صلیبی لشکر چرنا من کے مقام پر پہنچا اس وقت سلطان مراد عثمانی دارالحکومت بھروسہ میں موجود تھا.
Join Us On Telegram
جبکہ یورپی شہراینڈرین میں اس کا قائم مقام لالا شاہین کم و بیش ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ موجود تھا. یہ اطلاع لالا شاہین تک بروقت پہنچ گئی کہ ایک لشکر بیس یا ساٹھ ہزار پر مشتمل صوبہ انٹرین پر حملہ آور ہو جائے گا. لالا شاہین یہ بات جانتا تھا کہ ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ اینڈرین کا دفاع ممکن نہیں.
Sultan Murad
اینڈرین کیا سارا تھریس عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ تھا اس لیے لالا شاہین پاشا نے میں پہل کرنے کی حکمت عملی کے پیش نظر رات کے اندھیرے میں صلیبی لشکر پر اپنی چھوٹی سی فوج کے ساتھ حملہ کر دیا. رات کے اس اچانک حملے سے بے خبر صلیبی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی.
Sultan Murad
بہت سوں کو تو عثمانی فوج نے سوتے میں ہی قتل کر دیا. جبکہ کچھ دریائے مرٹساء میں ڈوب کر مر گئے. اور بہت سے صلیبی جنگجو بھگدڑ کی وجہ سے کچل کر مر گئے. بہرحال صلیبی فوج کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ماری گئی. یہی دریائے مرٹساء سربین اور صلیبی جنگجوؤں کا قبرستان بن گیا.
Sultan Murad
اس جنگ میں سربیا کا بادشاہ بھی مارا گیا. جبکہ ہنگری کا بادشاہ حیرت انگیز طریقے سے بچ نکلا. اس جنگ کو یورپ کی تاریخ میں جنگ مرٹساء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. اس جنگ کے نتیجے میں وہ سربین جو یورپ سے عثمانیوں کو باہر کرنے آئے تھے خود اپنے علاقوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے.
Sultan Murad
سربن امپائر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی. ان سب نے عثمانیوں کی بالادستی قبول کر لی اور باج گزار بن گئے. بلغاریہ مقدونیا بھی عثمانیوں کے باج گزار بن گئے. اس طرح سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں جنوبی بلغاریہ سے مشرقی سربیا تک جا پہنچی. اور بازطینی ریاست, بلغاریہ اور سربیا کے بقایا شہر یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضے میں آتے گئے.
تیرہ سو پچاسی عیسوی میں موجودہ بلغاریہ کا دارالحکومت صوفیاء سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گیا. تیرہ سو چھیاسی عیسوی میں سربیا کا شہر نص بھی فتح ہوا. اور عثمانی سلطنت میں شامل ہو گیا. سلطان مراد جہاں یورپ میں فتوحات اور کامرانیوں کے زینے چڑھ رہا تھا وہی وہ ایشیائی کوچک میں بھی بہت سے علاقے فتح کر گیا.
Sultan Murad
ان میں سب سے بڑی کامیابی ریاست کرمانیہ کی فتح تھی. امیر کرمانیہ جو کہ انا طولیہ یا ایشیائی کوچک میں ترکوں کی سرداری کا دعوی رکھتا تھا. آئے روز دولت عثمانیہ کے لیے پریشانیاں پیدا کرتا رہتا تھا. سلطان مراد نے اس کو رام کرنے کے لیے امیر کرمانیہ کی بیٹی کی بایزید یعنی اپنے بیٹے سے نسبت منظور کر لی.
Sultan Murad
چنانچہ امیر کرمانیہ نے اپنی بیٹی کو کرمانیہ کا بڑا حصہ اور قلعے جہیز میں عطاء کیے. عروسیہ کو جب ان قلعوں کی کندیاں پیش کی گئیں تو سلطان مراد نے انہیں اپنے پاس ہی رکھ لیا. جلد ہی ریاست حمید کے امیر سے شہر آگ بقیمت خرید لیا. جس کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں ریاست کرمانیہ سے ملحق ہو گئیں.
سلطان مراد نے مزید تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی بیٹی نفیسہ کو امیر کرمانیہ صلاح الدین کے نکاح میں دے دیا. اسی وجہ سے عرصہ باہم کوئی جنگ نہ ہوئی. لیکن امیر کرمانیہ عثمانیوں کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہ تھا. اس لیے وہ قونیہ کے قریب سلطان مراد کے مد مقابل آگیا.
Sultan Murad
اس جنگ میں سلطان مراد کے ساتھ اس کا بیٹا بایزید بھی شامل تھا جس نے اپنے سسر کو شکست دی اور اسے گرفتار کر لیا. اس پر بایزید کو یلدرم یعنی بجلی کی کڑک کا لقب حاصل ہوا. سلطان مراد نے اپنی بیٹی کی وجہ سے امیر کرمانیہ کی جان بخش دی اور اسے ریاست بھی بخش دی. اس طرح صلاح الدین نے سلطان مراد کی اطاعت قبول کر لی اور کرمانیہ کا سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گیا.
Sultan Murad
اس کے ساتھ ساتھ مزید علاقے فتح کرتے کرتے سلطان مراد نے سلطنت عثمانیہ کو توقع تک پہنچا دیا. سلطان مراد کی مختلف شریک حیات میں سے دستیاب معلومات کے مطابق تین بیٹے تھے سیوچی بے،بایزید اور یعقوب ان میں سے ساوچی بے کی شہنشاہ قسطنطنیہ کے بیٹے کے ساتھ مل کر بغاوت کرنے کی وجہ سے سلطان مراد نے پہلے اسے نابینا کیا اور بعض مؤرخین کے مطابق اسے بعد میں قتل کر دیا. جبکہ باقی دو بھائیوں کی داستان آگے آپ کو پتہ چل جائے گی.