Sultan Malik Sanjar

Sultan Malik Sanjar P3

-Advertisement-

سلطان ملک احمد سنجر

Sultan Malik Sanjar Part 3

 

یہ خبر بلخ کوماش تک پہنچ گئی. والی بلخ نے سلطان سنجر کو اطلاع دی اور مطالبہ کیا کہ غزو سے خراج وصول کرنے کا منصب اسے عطاء کیا جائے. سلطان نےوالی بلخ کو یہ منصب عطا کر دیا جب والی بلخ نے جا کر قرضوں سے خراج کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ہمارا اور سنجر کا معاملہ ہے. اس پر بات بڑ گئی اور والی بلخ کمارچ اور اس کا لڑکا مارے گئے.

-Advertisement-

 Sultan Malik Sanjar

-Advertisement-

سلطان احمد سنجر کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے ایک ہزار ایک سو تریپن عیسوی میں غضوں کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیا. غزو کوجب یہ خبر ملی تو وہ بہت پریشان ہوئے. اور بطور صلح ایک لاکھ دینار اور ایک سو غلام دینے کی پیشکش کی. سلطان احمد سنجر یہ پیشکش قبول کرنا چاہتے تھے مگر ان کے مشیروں نے اس کی مخالفت کی اور جنگ پر اصرار کیا.

-Advertisement-

 

بہرحال سلطان نے لشکروں کو روانہ ہونے کا حکم دے دیا جب فوجی لشکر غزو ں کے علاقے کے قریب پہنچے تو غزوں کے نمائندے آگئے اور انہوں نے اطاعت کا اظہار کیا. اور اپنی پیشکش کو بڑھاتے ہوئے ایک من چاندی دینے کا وعدہ کیا. مگر پھر سلطان سنجر کے مشیروں نے مخالفت کر دی اور جنگ پر ہی اصرار کیا.

 Sultan Malik Sanjar

اور سلطان نے جنگ کا حکم دے دیا مگر اس دفعہ تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا. چونکہ غزوں کے پاس لڑ کر مرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا. اس لیے انہوں نے نہ صرف جم کر مقابلہ کیا بلکہ مرو، نیشا پور اور خراسان کے دیگر شہروں کو بری طرح تباہ و برباد کر دیا. اور سلطان احمد سنجر کو ان کی اہلیت سمیت قید بھی کر لیا گیا.

 Sultan Malik Sanjar

اس غیر متوقع شکست کے نتیجے میں سلطنت میں افراتفری پھیل گئی فتح قسط اور قبیلوں نے صورتحال کو مزید ابتر کرتے ہوئے خراسان کو بلا مقابلہ جیت لیا. سلطان سنجر چونکہ اپنی اہلیہ سے بہت محبت کرتے تھے. اس لیے انہوں نے قید سے فرار کی کوئی کوشش نہ کی اور اسی طرح کم و بیش ساڑھے تین سال گزر گئے.

 Sultan Malik Sanjar

غز دن کے اجالے میں سلطان احمد سنجر کو تخت پر بٹھا دیتے اور اپنی مرضی کے احکام صادر کرواتے اور رات کو کو قید میں ڈال دیتے. آخر کار ایک ہزار ایک سو چھپن عیسوی میں سلطان سنجر کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا اور پھر سلطان احمد سنجر نے قید سے فرار کا فیصلہ کیا اور جلد ہی انہیں وہ موقع مل گیا.

 Sultan Malik Sanjar

سلطان احمد سنجر غزوں کی قید سے فرار ہو کر کسی نہ کسی طرح قلعہ ترمذ پہنچ گئے وہاں ان کے وفادار سپاہی ان سے آ ملے. یہاں سے وہ مرو گئے. تاکہ اپنی حکومت کو بحال کریں. لیکن مرو اور خراسان کے دوسرے شہروں کا ناقابل تلافی نقصان دیکھ کر انہیں بہت صدمہ پہنچا.

 Sultan Malik Sanjar

اور یہ صدمہ سلطان سنجر کے لیے بہت بڑا تھا کیونکہ انہوں نے اس سلطنت کی بقاء کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر دیا تھا. اسی صدمے سے وہ بیمار پڑ گئے اور آٹھ مئی ایک ہزار ایک سو ستاون عیسوی کو ستر سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. انہیں مروں میں ہی سپرد خاک کر دیا گیا.

 Sultan Malik Sanjar

اور اب بھی ان کا مقبرہ مروں میں ہی موجود ہے. سلطان احمد سنجر کی وفات کے ساتھ ہی سلجوکی سلطنت کا تقریبا خاتمہ ہو گیا. کیونکہ سلطان احمد سنجر کی صرف دو ہی صاحبزادیاں تھیں کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے ان کے زیر انتظام علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن گئیں. ترک حکمران ترک قبائل اور دیگر ثانوی طاقتیں خراسان کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گئیں.

 Sultan Malik Sanjar

اور ایک طویل عرصے کے تصادم کے بعد بلآخر خوارزم نے بارہ سو عیسوی میں اس علاقے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرتے ہوئے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈال دی. جس نے تاریخ میں سلطنت خوارزم کے نام سے اپنا مقام پیدا کیا. جبکہ مغربی طرف سلاج قہروم ایک خود مختار ریاست کا وجود رکھتے ہوئے صلیبیوں کے سامنے کھڑی تھی.

 

Malik Tapar Ibn Malik Shah

ان دونوں ریاستوں کو بعد میں منگولوں نے فتح کر لیا اور اس طرح سلجوقی سلطنت کی تمام بقایاجات کا بھی خاتمہ ہو گیا. بلاشبہ سلطان احمد سنجر عالم اسلام کے ایک عظیم سلطان اور نڈر لیڈر تھے انہیں سلطان اعظم کا لقب بھی دیا گیا. آج بھی ترکمانستان میں پانچ منات کے نوٹ پر احمد سنجر کی تصویر اور سو منات کے نوٹ پر ان کے مقبرے کی تصویر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان اور سلطان اعظم تھے.

Join Us On Telegram

-Advertisement-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *