اورحان غازی
Orhan Ghazi Part 2
ملک کے کونے کونے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا. سلطان اور خان ابھی داخلی امن و استحکام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ بازنطینی امپائر میں تخت نشینی کے لیے جھگڑا پیدا ہو گیا. بازنطینی سلطنت کے ایشیائی علاقے تو پہلے ہی عثمانیوں کے قبضے میں آچکے تھے جبکہ بازنطینی سلطنت کے یورپی علاقوں میں صرف تھریس، مقدونیا کا ایک حصہ جس میں سلونیکا شامل تھا اور یونان میں موریا کا ایک بڑا حصہ شامل تھا.
جبکہ ایک بڑا حصہ بدنطینی سلطنت پہلے ہی سربیا اور بلغاریہ کے ہاتھوں گنوا چکے تھے. اس اندرونی خانہ جنگی نے بدنطینی سلطنت کو مزید کمزور کرنا شروع کر دیا. تیرہ سو اکتالیس عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ اینڈ اور ناکس سوئم کا جب انتقال ہوا تو پسماندہگان میں صرف اس کا نابالغ لڑکا جان پیلو لوگس اور شہنشاہ کی ملکہ عینہ موجود تھی. اور کینٹاگوزین ایک اعلی ریاستی عہدیدار تھا وہ سلطنت کا والی بن گیا.
Join Us On Telegram
مگر کچھ عرصہ بعد کینٹاگوزین نے اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا. ملکہ عینہ کو کینٹاگوزین کی یہ حرکت ناگوار گزری اور دونوں میں لڑائی چھڑ گئی.کینٹاگوزین عثمانی ترکوں کی جنگی مہارت اور ابھرتی طاقت سے خوب واقف تھا اس نے مستقل طور پر اس عثمانی قوت کو اپنے مفاد کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے مسلک کے اختلاف اور عمر کے تفاوت کے باوجود اور خان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کے لیے اپنی دوسری بیٹی تھیو ڈورا اس کے نکاح میں دے دی.
اور حالیہ ملکی حالات کی وجہ سے فوجی مدد بھی مانگ لی. چنانچہ سلطان اور خان نے چھ ہزار ترک سپاہی مدد کے لیے روانہ کر دیے.کینٹا گوزین نے ترکوں کی مدد سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا. ایک سال بعد قسطنطنیہ میں فاتحانہ داخل ہوا. ملکہ نے مجبورا صلح کر لی اور ایک مشترکہ حکومت تشکیل پا گئی. جس میں کینٹا گوزین اور اس کی ملکہ اور ملکہ عینہ اور شہزادہ جان پیلو لوگس کی تاج پوشی کی گئی.
کینٹا گوزین نے جہاں ایک بیٹی سلطان اور خان کی نکاح میں دی وہی دوسری بیٹی کی شادی جان پیلو لوگس سے کر دی. مشترکہ حکومت کا یہ فارمولا زیادہ دیر نہ چل سکا. اور پھر خانہ جنگی شروع ہو گئی. اس دفعہ کینٹا گوزین نے تخت و تاج کے تمام دعویداروں کو ختم کر کے مکمل طور پر خود مختار تنہا حکمران بننے کا ارادہ کیا. تیرہ سو تریپن عیسوی میں کینٹا گوزین نے پھر اور خان سے فوجی تعاون کی درخواست کی اور اس کے معاوضے میں یورپی ساحل پر ایک قلعہ سیمپ پیش کیا.
یہ وہ موقع تھا جو خوش بختوں کو ہی ملتا ہے. جس چیز کی تھی وہی سلطان اور خان کی جھولی میں آگئی. سلطان اور خان نے پیشکش قبول کی اور اپنے بڑے لڑکے سلیمان پاشا کی قیادت میں بیس ہزار ترک سپاہی کینٹا گوزین کی طرف روانہ کر دیے. ان ترک سپاہیوں کی مدد سے کینٹا گوزین نے تخت و تاج پر مکمل قبضہ کر لیا اور قسطنطنیہ کا تنہا حکمران بن گیا.
سلیمان پاشا نے حسب و معاہدہ قلعہ سیمپ جو کہ کیلا پولی کے بہت نزدیک تھا پر قبضہ کر کے عثمانی فوج متعین کر دی. چند ہی دنوں بعدآباد تھریس میں ایک زبردست زلزلہ آیا. بہت سے شہروں کی فصیلیں منہدم ہو گئیں تو سلیمان پاشا کی نگاہ گیلا پولی پر پڑی. جو قلعہ سیمپ کے بہت قریب تھا. زلزلے میں ہزاروں گاؤں اور قصبے بری طرح تباہ ہو گئے. گیلے پولی کی تقریبا ہر عمارت تباہ ہو گئی. جس نے مقامی آبادی کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا.
سلیمان پاشا نے اسے عنایت ربانی سمجھا اور موقع کی مناسبت سے گیلا پولی میں اپنی فوجیں اتار دیں. فوری طور پرگیلا پولی کو مضبوط بنایا اور انا طولیہ سے لائے ہوئے ترک خاندانوں کے ساتھ آباد ہونے والی جگہ پر قبضہ کر لیا.کینٹا گوزین نے بہت احتجاج کیا اور دس ہزار دکات کے عوض میں قلعہ سیمپ واپس لینا چاہا مگر سلیمان پاشا نے انکار کر دیا. کیونکہ ترک مسلمانوں کے نزدیک فتح شدہ علاقے ان کی ملکیت ہوتے تھے.
گیلا پولی کے ساتھ ساتھ انہوں نے تھریس کے چند اور مقامات پر بھی قبضہ کر لیا. ان دو قلعوں کےقبضے میں آجانے سے یورپ کے سرحد ی حدود میں ترکوں کے قدم جم گئے. گیلا پولی درہ دانیال کے مغربی ساحل کا سب سے اہم قلعہ تھا. اور یہی سے ترکوں کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا. تیرہ سو چون عیسوی میں انہوں نے پہلی بار فاتح کی حیثیت سے یورپ میں قدم رکھا اور مسیحی یورپ میں ایک عظیم الشان اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی.
جو دو صدیوں کے اندر گیلا پولی سے ویانہ تک پھیل گئی. مسلمانوں کو یورپ میں داخل کرنے پرکینٹا گوزین کے خلاف عوام میں سخت بے چینی پھیل گئی. اور ہر شخص کینٹا گوزین کو غدار وطن کہنے لگا. آخر کار رائے عامہ کے دباؤ سے مجبور ہو کر اسے تخت و تاج سے محروم ہونا پڑا. اس کی تخت سے دستبرداری پر جان پیلو لوگس پھر سے تخت نشین ہوا اور پچاس برس تک حکومت کی مگر وہ بازنطینی سلطنت کی حالت کو سنبھال نہ سکا سلطان اور خان نے اس کمزور بازنطینی حکومت کے دور میں مزید قلعے شورلوں اور ڈیموٹکا فتح کیے.
جان نے صلح کر کے ڈیموٹکا چھڑا لیا مگر جنوبی تھریس پر سلطان اور خان کا قبضہ قائمرہا. سلطان اور خان کی فتوحات میں ولی عہد سلیمان پاشا نے بہت اہم کردار ادا کیا. یہ شہزادہ فن سپاہ گری اور سپہ سالاری میں ممتاز اور خاندان عثمانی اعلی اوصاف کا حامل تھا. رعایا میں بے حد مقبول تھا سلطان اور خان کا صحیح جانشین ہونے کا حقدار بھی تھا. مگر تیرہ سو اٹھاون میں شکار کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرا اور اس جہان فانی سے کوچ کر گیا.
سلطان اور خان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا سلطان اور خان نے سلیمان پاشا کی جدائی کا بہت اثر لیا. اور اسی صدمے سے دوسرے ہی سال تیرہ سو انسٹھ میں انتقال کرگیا سلطان اور خان نے اپنے تینتیس سے چھتیس سالہ دور اقتدار میں عثمانی مقبوضہ کو بہت زیادہ وسعت دی. اس نے نہ صرف ایشیائی کوچک کے بقیہ بازنطینی علاقوں پر قبضہ کیا بلکہ اس نے یورپ میں داخل ہو کر تھریس کا ایک بڑا حصہ فتح کر کے یورپ میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول دیا.
Orhan Ghazi Part 1
تاریخ میں سلطان اور خان کی پانچ سے چھ شادیوں کا ذکر ملتا ہے. پہلی سلطان مراد اول کی والدہ نیلوفر خاتون اور کی بیٹی تھیوڈورا کے علاوہ باقی تمام شادیوں کی معلومات یا تو بہت محدود ہیں یا پھر غیر متصدقہ ہیں. ابھی عثمانی یورپ میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ولی عہد سلیمان پاشا اور پھر سلطان اور خان یکے بعد دیگرے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے. ان کے بعد سلطان اور خان کا دوسرا بیٹا مراد اول مسند اقتدار پر ترجمان ہوا ۔
Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2Orhan Ghazi Part 2