Malik Tapar

Malik Tapar Ibn Malik Shah

-Advertisement-

ملک تپار (غیاث الدین والدنیا)

Malik Tapar Ibn Malik Shah

سلطان ملک شاہ کی وفات کے ساتھ ہی سلجوکی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا. ملک شاہ نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور انتظامات کے ذریعے افغانستان سے اناطولیہ ترکی تک پھیلی ہوئی وسیع سلطنت میں امن و استحکام کو قائم رکھا. ملک شاہ کی وفات کے چند سالوں میں ہی بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا فلسطین پر بھی فاطمیوں کا قبضہ ہو گیا اور سلطنت تقریبا چار بڑے حصوں میں بٹ گئی. جو کہ سلاج قہ شام, ایران, و عراق, خراسان اور ترکستان تھے.

 

-Advertisement-

آپ ملک شاہ کی شریک حیات با شعلوں یا سفریہ خاتون کےبطن سے ایک ہزار بیاسی عیسوی میں پیدا ہوئے. آپ کا نام غیاث الدین و دنیا محمدتپاررکھا گیا. جب ملک شاہ کا انتقال ہوا محمد تپار محض گیارہ سال کا تھا.

-Advertisement-

Malik Tapar

-Advertisement-

ایک ہزار ایک سو پانچ عیسوی میں محمد تپار کے بڑے سوتیلے بھائی برقیہ روب بغداد میں انتقال کر گئے اور اس کا بیٹا ملک شاہ دوائم جو کہ محض پانچ سال کا تھا ان علاقوں پر تخت نشین ہوا جو کہ برقعہ روب کے زیر انتظام تھے. تئیس سال کی عمر میں محمد تپار نے سلجوکی تخت کی بھاگ دوڑ تو اپنے ہاتھ میں لے لی مگر اس کا چھوٹا بھائی احمد سنجر جو کہ خراسان کا گورنر تھا.

Malik Tapar

محمدتپار سے زیادہ منظم طاقت اور عملی اختیار رکھتا تھا. ایک ہزار ایک سو چھ عیسوی میں محمد تپار نے اسماعیلی قلعے شاد س کو فتح کر لیا اور باونڈی حکمران شہریار چہارم کو حکم دیا کہ وہ باطنی فضائی حملہ آوروں کے خلاف جنگ کا آغاز کرے.شہریارچہارم نے باطنی فضائی حملہ آوروں کے خلاف محمد تپار کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا.

Malik Tapar

محمد تپار نے شہریار کو سبق سکھانے کی غرض سے امیر چاولی کی سربراہی میں پابندی ریاست کی طرف ایک لشکر بھیجا. جس نے سری قلعے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر غیر متوقع طور پر شہریار اور اس کے بیٹے قارین سوئم نے ان کو شکست دی تھی.

Malik Tapar

اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے محمد تپار نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے باونڈی حکمران شہریار کو خط لکھ کر دارالحکومت اصفہان آنے کی دعوت دی. شہریار نے اپنے بیٹے علی کو اصفہان بھیج دیا. علی نے اس اصفہان میں اپنے قیام کے دوران محمد تپار کو اتنا متاثر کیا کہ محمد تپار نے اپنی بیٹی کو علی کے نکاح میں دینے کی پیشکش کی. لیکن علی نے انکار کر دیا اور محمد تپار سے کہا کہ وہ اپنے بھائی اورباونڈی خاندان کے وارث قارین سوئم کو یہ اعزاز عطا کریں.

Malik Tapar

اور قارین شعیب نے بعد میں آ کر محمد تپار کی بیٹی سے شادی کر لی. محمد تپار نے ایک ہزار ایک سو سات عیسوی میں سلاجک روم جو کہ ملک شاہ کے دور میں ہی سلجوکی سلطنت کے ماتحت ایک خود مختار ریاست تھی کہ سلطان کلیج ارسلان کے خلاف دریائے غبور کی لڑائی میں شام کے گورنر ملک رضوان کا ساتھ دیا.

Malik Tapar

جو کہ اپنے والد طوطس اول کی وفات کے بعد شام پر حکومت کر رہا تھا. اس لڑائی میں کلیج ارسلان کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا. ایک ہزار ایک سو سات عیسوی میں ہی وزیر نظام الملک مرحوم کے بیٹے احمد بن نظام الملک احمدان کے رئیس کے خلاف شکایت کی عرضی لے کر اصفہان کی عدالت میں گیا.

جب احمد بن نظام الملک عدالت میں پہنچا تو محمد تپار نے اس کو اب اپنا وزیر مقرر کر لیا. اس کی بڑی اور وجہ نظام الملک کی ساخت اور عزت تھی. محمد تپار نے اپنے وزیر احمد کے ساتھ مل کر عراق میں ایک مہم چلائی جہاں انہوں نے ماضیات کے حکمران سیفت دولہا صداقتہ بن منصور کو شکست دے کر ہلاک کر دیا.

Malik Tapar

ایک ہزار ایک سو نو عیسوی میں محمدتپار نے اپنے وزیر احمد اور امیر چاولی سکاؤ کو باطنی قلعہ الموت اور ستاون کو فتح کرنے بھیجا لیکن وہ فیصلہ کن نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے. اور قلعوں کا محاصرہ بھی چھوڑ دیا. محمدتپار ایک ہزار ایک سو اٹھارہ ای سی میں تقریبا چھتیس سال کی عمر میں انتقال کر گیا.

Malik Tapar

اس طرح محمد تپار کا تیرہ سالہ دور اقتدار ختم ہو گیا. اپنے دور اقتدار میں انہوں نے زیادہ کوشش باطنیوں اور فدائیوں کا قلع قمع کرنے میں سرو کی. محمد تپار اور احمد سنجر دونوں سگے تو تھے ہی مگر وہ ایک دوسرے پر بہت اعتماد بھی کرتے تھے. اس لیے محمد تپار نے اپنے بیٹے محمود دوئم کو احمد سنجر کی اطاعت کرنے کی وصیت کی تھی.

 

محمد تپار اپنے بیٹے محمود دوئم کے لیے عراق اور ایران کے تمام علاقوں کی حکمرانی چھوڑ کر گیا. جبکہ اس کا بھائی احمد سنجر فراسان اور ماوراؤں لنہر یعنی ترکستان پر حکومت کر رہا تھا. اپنے والد محمد تپار کے بعد محمود دوئم نے ایک ہزار ایک سو اٹھارہ ای سی سے ایک ہزار ایک سو اکتیس عیسوی تک اپنے چاچا احمد سنجر کے ماتحت ان علاقوں پر حکومت کی.

Malik Tapar

محمود دوئم نے اپنا دارالحکومت مرحو منتقل کیا اور کچھ عرصے کے بعد محمود دوئم نے اپنے چاچا احمد سنجرسے سرکشی کی اور حکومتی امور نے ان سے کئی بےقاعدگیاں سرزد ہوئیں. تو احمد سنجر آگے بڑھ کر ان سے حکومت چھین لی. لیکن ان کی والدہ اور محمود دوائم کی دادی نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا. جس کے بعد احمد سنجر نے محمود دوئم کو اپنا نائب مقرر کر دیا.

Join Us On Telegram

اور حکم دیا کہ پورے مملکت سلجوقیہ میں جہاں جہاں خطبہ پڑھا جائے وہاں احمد سنجر کے نام کے ساتھ محمود کا نام بھی لیا جائے. احمد سنجر کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے وہ محمود دوئم سے بے حد محبت کرتا تھا. یہی وجہ کہ جب تک محمود دوئم زندہ رہا.

Malik Tapar

اپنے چاچا کے سائے میں حکومت کرتا رہا. بلآخر چھبیس سال کی عمر میں ایک ہزار ایک سو اکتیس عیسوی میں محمود دوئم بھی انتقال کر گیا اور ان کے انتقال کے ساتھ ہی اس کے بیٹے اور بھائیوں میں تخت کی جنگ شروع ہو گئی. جبکہ احمد سنجر پہلے ہی پوری سلجوقی سلطنت پر واضح طور پر حکومت کر رہا تھا.

SultanBayezid Part 1

-Advertisement-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *