
چنگیز خان اور خوارزم سلطنت
حصّہ دوم
Khwarizam Saltanat
یہ پیغام چنگیز خان کی طرف سے ایک ایسا پیغام تھا جو ڈپلومیسی زبان میں انتہائی اہم تھا. اس پیغام میں بظاہر دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا گیا لیکن وہی خوارزم شاہ کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ تمہاری حیثیت میرے سامنے ایک بیٹے کی سی ہے. مطلب تم مجھ سے چھوٹے ہو. بهرحال سلطان علاءالدین محمد بن تکش نے چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا.
Join Us On Telegram
سفیروں کی قدر و منزلت کی گئی. بہت سے قیمتی تحائف چنگیز خان کی طرف خیر سگالی کے طور پر بھیجے گئے. لیکن چنگیز خان کے الفاظ کی گہرائی نے علاؤ الدین محمد بن طیکش کو چوکنا کر دیا. کہ چنگیز خان نے اسے اپنے برابر کا مرتبہ دینے کے بجائے کم درجے پر رکھا ہے. اور آنے والے دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے.
اب سلطان علاءالدین چنگیز خان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا تھا. اور اس کا مستقبل میں کیا ارادہ ہے یہ اس کے لیے بہت اہم تھا. اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے اپنے سفیر سید بہاؤالدین راضی کی سربراہی میں منگولیا بھیج دیے.
جب بہاؤالدین راضی چنگیز خان کے دربار میں پہنچا اور تحفے پیش کیے تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا علاؤ الدین طیقس سے کہنا میں اس سرزمین کا بادشاہ ہوں جدھر سے سورج نکلتا ہے. اور تو زمین کا فرماں رواں ہے جدھر سورج غروب ہوتا ہے. ہم دونوں کے درمیان محبت دوستی اور صلح کا عہد پختہ رہنا چاہیے. فریقین کی طرف سے تاجر اور قافلے بے تکلف آئے جائیں.
جو قیمتی اور نادر چیزیں یا سامان تجارت میرے ملک میں ہے وہ تمہارے ملک پہنچے اور جو کچھ تمہارے ملک میں ہے وہ میرے ملک میں آئے. چنگیز خان نے خوارزمشاهی سفارت کی خوب پذیرائی کی اور خیر سگالی دوستی کے جذبات کے اظہار کے طور پر ایک تجارتی قافلہ خوارزم کی طرف روانہ کیا. پانچوں اونٹوں کا یہ تجارتی قافلہ سونے چاندی ریشم, خام ریشم اور نفیس اشیاء سے بھرپور تھا.
Khwarizam Saltanat
منگولیہ سے خواجہ آصف شاہ کے درمیان پہلی سرحدی چوکی اترار کے مقام پر واقع تھی. حاکم اترار سلطان علاؤالدین کا رشتے میں ماموں تھا اس کا نام النجک تھا. جب یہ تجارتی قافلہ اترار کے مقام پر اترا تو قافلے کی دولت کی چمک دمک نے النجک کی عقل پر پردے ڈال دیے.
عام انسان غلطی کرے تو وہ خود یا ان کے ورثاء اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں مگر حکمران کی غلطیوں کا خمیازه قوموں کو بھگتنا پڑتا ہے. النجک نے کا مال لوٹ لیا. اور تمام تاجروں کو جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیا. سلطان علاؤالدین کو بھی غلط معلومات فراہم کیں کہ یہ قافلہ جاسوسی کے لیے آیا تھا اور مطمئن ہو گیا.
مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے بھیڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے. کہا جاتا ہے کہ اترار کے قتل عام میں صرف ایک صاحبان کے سوا کوئی تاجر زندہ نہ بچ سکا. وہ سربان کسی نا کسی طرح صحرائی راستے سے منگولیا اپنے وطن پہنچ گیا. اور تمام واقعہ چنگیز خان کے گوش گزار کر دیا.
Khwarizam Saltanat
اب کیا تھا چنگیز خان حاکم اترار کی اس وحشیانہ حرکت پر تلملا اٹھا اور انتقام کی آگ میں جلنے لگا. لیکن کسی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے مناسب خیال کیا کہ سلطان علاؤالدین کو اعظم شاہ سے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت خلاف ورزی پر احتجاج جائے. ظالموں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے اور مقتولین کے لیے ہر جانا وصول کیا جائے.
اسی انصاف کے حصول کے لیے چنگیز خان نے تین افراد پر مشتمل ایک سفارتی مشن سلطان علاؤالدین کو اعظم شاہ کی طرف بھیج دیا. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انصاف ہوتا مگر سلطان علاؤالدین خادم شاہ کی مجبوری یہ تھی کہ حاکم اترار النجک سلطان کا ماموں تھا. اور ایک اثر قبیلے کا فرد بھی تھا.
سلطان کی والدہ ترکان خاتون نے بھی اپنے بھائی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہونے دیا. سلطان نے معاملات سلجھانے کے برعکس سفیر کو قتل کر دیا اور باقی دو کی داڑھی جلا ڈالی. سلطان کے اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا. یہ اقدام سوئے شیر کو جگانے کے مترادف تھا.
Khwarizam Saltanat
حاکم اتراڑ کی غداری اور سلطان کی کوتاہی نہ صرف سلطنت خوارزم کی تباہی اور بربادی کا سبب بنی بلکہ دنیا اسلام بھی اس کی لپیٹ میں آگئی. سلطان علاء الدین خوارزم شاہ اور چنگیز خان کے مابین عام طاقت کے توازن کی بنا پر قائم نہ تھا بلکہ ایک طرح سے خوف کے توازن کے تحت قائم تھا.
علاؤالدین خازم شاہ کی پے در پے فتوحات نے چنگیز خان پر ایک طرح کی نفسیاتی برتری حاصل کر رکھی تھی. جبکہ چنگیز خان کبھی بھی دشمن کو کمزور اور خود کو غیر معمولی طاقتور تصور نہیں کرتا تھا. دونوں سفیر جن کی داڑھیاں سلطان نے جلا ڈالی تھی چنگیز خان کے سامنے پیش ہوئے اور سفیر کے قتل کی اطلاع دی.
تو چنگیز خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا. وہ دوبارہ برخان خاتون کی پہاڑی پر چڑھ گیا اور قسم کھائی کہ وہ دنیا میں کوئی سلطنت کیا بادشاہ اپاج بنائے بغیر نہیں چھوڑے گا. تاکہ کوئی ہاتھ ایسا نہ رہے جو چنگیز خان کے گریبان تک پہنچ سکے. کوئی زبان نہ رہے جو چنگیز خان کو للکارنے کے قابل رہ سکے.
اب کیونکہ تجارتی تعلقات ختم ہونے کے بعد سفارتی تعلقات بھی ختم ہو گئے. تو واپس اپنے مقام پر پہنچنے کے بعد چنگیز خان نے ایک آخری پیغام سلطان علاؤ الدین خوارزم شاہ کی طرف بھیجا. جس کی زبان نهایت کڑوی تھی.
پیغام کچھ یوں تھا کہ تم نے لڑائی کو آواز دی ہے اپنے لیے جنگ کا انتخاب کیا ہے. اب جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا. اس کا علم صرف خدا کو ہے مجھے بھی نہیں. اس پیغام کے بعد چنگیز خان نے جنگی تیاری شروع کر دی.
Changez khan, Khwarizam Saltanat Part 1
Khwarizam Saltanat
Khwarizam Saltanat