Khalid ibn al Wadeed RadiAllaho Anho Part 2

Khalid ibn al Wadeed RadiAllaho Anho

Khalid ibn al Wadeed RadiAllaho Anho

رومن ایمپائر تین براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے مشرق میں ایران کی ساسانی ایمپائر تھی۔ یہ سلطنت آج کے بلوچستان تک وسیع تھی۔ یہ دونوں اپنے وقت کی ایسی سپر پاورز تھیں جو ہر لمحہ ایک دوسرے کو مٹانے کے لیے حالت جنگ میں رہتی تھیں۔ عرب قبائل ان دونوں میں سے کسی ایک کے باجگزار بن کر ہی رہ سکتے تھے۔ یا تو وہ رومیوں کی ویسل سٹیٹ،یعنی ان کے ماتحت ہوں گی یا پھر ایرانیوں کی۔ لیکن چھ سو تیتیس سی ای میں ایک عرب سالار خالد بن ولید نے ان دونوں سلطنتوں کو چیلنج کر دیا۔ ایک کے بعد ایک سلطنت سے خونریز جنگیں ہوئیں۔ ان لڑائیوں میں خالد بن ولید نے اپنے سے کہیں بڑے لشکروں اور تجربہ کار جرنیلوں کو شکست فاش دی۔

ان فتوحات کے پیچھے عظیم جنرل خالد بن ولید کی کیا حکمت عملی پوشیدہ تھی؟ رومی اور آتش پرست فارسیوں کی طاقت اور کمزوریاں کیا تھیں؟ عرب سالار کو ان سے جنگ کرنا کیوں پڑی؟ مائی کیوریس فیلوز قدیم دور میں اگر کسی سلطنت نے سب سے زیادہ عروج حاصل کیا تو وہ رومن ایمپائر تھی۔ دوسری صدی، سیکنڈ سنچری کے دوران رومن ایمپائر کی سرحدیں مغرب میں آج کے برطانیہ سے لے کر مشرق میں خلیج فارس یعنی پرشیئن گلف تک پھیلی ہوئی تھیں۔

تاہم آنے والی صدیوں میں یہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور ایک ایک کر کے اپنے علاقے گنواتی چلی گئی۔ ایک سو سترہ میں اس سلطنت کا جو رقبہ تھا وہ چار صدیوں بعد چھے سو اٹھائیس سی ای، کامن ایرا میں سکڑ کر آدھے سے بھی کم رہ گیا تھا۔ اس کی مغربی ایمپائر جو اٹلی میں تھی اور جس کا دارالحکومت ایک طویل عرصے تک روم شہر رہا وہ مغربی ایمپائر اب ختم ہو چکی تھی۔ اب مشرق میں ایسٹرن رومن ایمپائر یا بازنطینی سلطنت ہی باقی تھی اس کا دارالحکومت اب قسطنطنیہ تھا وڈیو میں ہم اسی باظنطینی سلطنت کو ایسٹرن رومن ایمپائر کہیں گے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج ترکی کا شہر استنبول ہے۔

بظاہر یہ ایسٹرن رومن ایمپائر تین براعظموں یعنی یورپ، افریقہ اور ایشیا تک وسیع تھی۔ تاہم حقیقت میں یہ اپنا عروج گزار چکی تھی اور زوال کا شکار تھی۔ رومن سلطنت کے مغرب میں یورپ والی سائیڈ پر زیادہ تر علاقہ مختلف جنگجو یورپین قبائل نے چھین لیا تھا۔ اٹلی اور یونان کے کچھ حصوں کو چھوڑ کر باقی سارے علاقے پر انہی قبائل کا قبضہ تھا۔ خاص طور پر آوار اور سلاوک قبائل تو اتنے طاقتور تھے کہ وہ مغربی سائیڈ سے رومن ایمپائر کے دارالحکومت استبنول اس وقت کے قسطنطنیہ تک پہنچ چکے تھے۔ ان کے راستے کی واحد رکاوٹ قسطنطنیہ کی بلند اور ناقابل شکست دیواریں تھیں۔

جنگجو قبائل ان دیواروں کے سامنے بے بس ہو جاتے تھے تاہم وہ وقفے وقفے سے حملے جاری رکھتے اور رومنز کو ڈرا دھمکا کر ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے رہتے۔ رومنز بھی امن کی قیمت سمجھ کر یہ رقم بطور رشوت ادا کرتے رہتے تھے۔ اس رشوت اور مضبوط دیواروں کے سہارے ہی رومن ایمپائر کا بھرم قائم تھا۔ مغرب میں رومن ایمپائر کو آوارز اور سلاوکس کا سامنا تھا تو مشرقی سرحدوں پر اسے ایرانی ایمپائر کا چیلنج درپیش تھا۔ مورخین اس ایرانی ایمپائر کو فارسی، پرشین یا ساسانی ایمپائر بھی کہتے ہیں وڈیو میں ہم کنفیوژن سے بچنے کے لیے اسے ایرانی ایمپائر کہیں گے۔

تو دوستو یہ ایرانی ایمپائر مشرق میں بلوچستان اور افغانستان جبکہ مغرب میں عراق اور آذربائیجان تک پھیلی ہوئی تھی اس کا دارلحکومت ٹیسفون تھا جسے عرب المدائن کہتے تھے۔ المدائن کا مطلب تھا ایک سے زیادہ شہر۔ چونکہ تیسفون کی آبادی اس دور کے لحاظ سے کئی شہروں کے برابر تھی اس لئے اسے عرب المدائن کہتے تھے۔ اس شہر کے اب کھنڈر ہی باقی رہ گئے ہیں جو موجودہ بغداد سے پینتیس کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہیں۔ تو یہ ایرانی سلطنت روم کیلئے ایک مستقل خطرہ بن چکی تھی۔ دونوں سلطنتوں میں کئی صدیوں سے وقفے وقفے سے لڑائیاں ہوتی تھیں۔

خاص طور پر یہ آج جو ترکی کے ساتھ کاکیشیا “کاکاسس” کا علاقہ ہے یہ ان لڑائیوں کا مرکز تھا۔ اس علاقے میں جارجیا، آرمینیا اور آج کے آذربائیجان وغیرہ شامل تھے۔ یہ علاقہ ان دونوں طاقتوں میں مستقل ڈسپیوٹڈ ایریا تھا، کبھی ایک پاور یہاں قبضہ کر لیتی تو کبھی دوسری۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار یہ جنگیں شام اور مصر تک بھی پھیل جاتی تھیں۔ لیکن ہر جنگ کا ایک ہی نتیجہ نکلتا تھا کہ پہلے ایرانی فوج حملہ کر کے رومن ایمپائر کا ایک بڑا علاقہ چھین چکی ہے۔ تو اس کے بعد رومن فوج جوابی حملہ کرتی اور ایرانیوں کو پیچھے دھکیل کر اپنے علاقے واپس لے لیتی۔

دونوں ایمپائرز میں سے کسی میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ دوسرے کے علاقے پر تادیر قبضہ برقرار رکھ سکے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایرانین ایمپائر کی مغربی اور رومن ایمپائر کی مشرقی سرحد پر سٹیل میٹ چل رہا تھا۔ اس اسٹیلمیٹ کو توڑنے کیلئے شہنشاہ ایران خسرو پرویز نے چھے سو دو، سکس او ٹو میں ایک بھرپور حملہ کیا۔ یہاں ایک بھرپور جنگ شروع ہو گئی۔ اگلے چھبیس سال تک دونوں ایمپائرز کی فوجیں ایک دوسرے کو خاک و خون میں نہلاتی رہیں۔ اس جنگ میں ایرانیوں کا پلڑا بھاری رہا اور جارجیا سے لے کر مصر تک ایرانیوں کی حکومت قائم ہو گئی۔

اس جنگ نے ایرانی ایمپائر کو اپنی انتہائی بلندی پر پہنچا دیا۔ حتیٰ کہ دمشق اور بیت المقدس جیسے اہم شہر بھی ایرانیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ ایک موقع پر تو ایرانی فوج رومن دارالحکومت قسطنطنیہ کے باہر پہنچ گئی تھی تاہم وہ اس پر قبضہ نہیں کر سکی۔ وہی آپ جانتے ہیں مضبوط دیواریں۔ آخر میں رومن حکمران ہراکلیس ون نے خسرو پرویز کو شکست دے کر تمام کھوئے ہوئے علاقے ایک بار پھر واپس چھین لئے۔ وہ بیت المقدس سے چھینی گئی عیسائیوں کی مقدس ترین صلیب ’ٹرو کراس‘ بھی ایرانیوں سے واپس لے آئے تھے۔

سو نتیجہ پھر وہی، ڈھاک کے تین پات۔ کچھ نہیں بدلا۔ تاہم دوستو یہ اسٹیلمیٹ والی جنگ دونوں ہی ایمپائرز کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس نے دونوں طاقتوں کو بہت کمزور کر دیا۔ کیونکہ اس جنگ میں دونوں طرف سے ان گنت جانیں ضائع ہوئیں، کئی تجربہ کار کمانڈرز مارے گئے اور خزانے خالی ہونے لگے اب دونوں ایمپائرز ڈیسٹیبل گئیں۔ لڑکھڑانے لگیں۔ ایرانی ایمپائر پر تو اتنا اثر پڑا کہ تخت و تاج کیلئے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ہارے ہوئے ایرانی شہنشاہ خسرو پرویز کو اسی کے بیٹے شیرویہ جسے قباد ثانی کہا جاتا ہے اس نے قتل کروا دیا۔

یہی نہیں اس نے اپنے اٹھارہ بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ اس کی حکومت چیلنج کرنے والا کوئی زندہ نہ رہے۔ خسرو پرویز کے حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث بھی ہے کہ پیغمبر اسلام نے کسریٰ یعنی شاہ ایران خسرو پرویز کو بحرین کے گورنر کے ہاتھ ایک خط بھیجا تھا۔ اس خط میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی تاہم خسرو پرویز نے وہ خط پھاڑ دیا۔ اس پر رسول خدا نے اسے بددعا دی کہ اللہ فارس کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ برصغیر کے مشہور ہسٹورین اکبر نجیب نے لکھا ہے کہ خسرو پرویز نے یمن کے گورنر کو لکھا کہ عربوں کے پیغمبر کو گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دو۔

گورنر باذان نے دو آدمی مدینے میں بھیجے۔ وہ دونوں پیغمبر اسلام سے ملے اور انہیں خسرو پرویز کے حکم سے آگاہ کیا۔ اس پر رسول خدا نے کہا کہ جس کو اپنا خدا سمجھتے ہو یعنی خسرو پرویز وہ رات اپنے بیٹے کے ہاتھ سے مارا گیا ہے۔ یہ دونوں قاصد واپس یمن کے گورنرکے پاس پہنچے اور اسے یہ بات بتائی۔ اسی دوران ایرانی دارالحکومت مدائن سے اطلاع پہنچی کہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر دیا۔ گورنر نے جب یہ بات سنی تو کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ تو بہرحال خسرو پرویز اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کی موت کے بعد ساسانی سلطنت تیزی سے زوال کی طرف جانے لگی۔

خسرو پرویز کی موت کے بعد محض پانچ برس کے عرصے میں کم از کم گیارہ حکمران آئے اور گئے۔ ان میں ایک ایرانی جنرل شہربراز، خسرو پرویز کی دو بیٹیاں پوران دخت اور آرزمی دخت بھی حکمران بنیں۔ آخر میں چھے سو تینتیس، سکس تھرٹی ٹو میں خسرو پرویز کا پوتا یزد گرد سوئم تخت نشین ہوا۔ وہ تقریباً بیس برس تک ساسانی ایمپائر کے آخری حکمران کی حیثیت سے زندہ رہا لیکن یہ حیثیت بھی محض سمبالک تھی۔ تخت نشینی کے وقت یزد گرد کی عمر کیا تھی اس پر مسلمان ہسٹورینز میں اتفاق نہیں۔

مورخ ابنِ قتیبہ کے خیال میں اس کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ جبکہ طبری میں لکھا ہے کہ یزد گرد تھرڈ کُل اٹھائیس سال ہی زندہ رہا تھا۔ تو اگر اس حساب سے طبری کے ریفرنس سے دیکھیں تو تخت نشینی کے وقت یزد گرد تھرڈ کی عمر محض آٹھ سال تھی۔ اسی وجہ سے اصل طاقت اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے درباریوں کے ہاتھ میں تھی۔ محلاتی سازشوں کا بازار بھی گرم تھا۔ لیکن بعض مسلم مورخین لکھتے ہیں کہ عرب حملے کے وقت ایران کا شہنشاہ یزد گرد نہیں بلکہ اردشیر تھا۔ ادھر سینڑل ایشیا اور کاکیشیا یا کاکاسس ریجن سے ترک قبائل بھی ایرانی سلطنت پر حملے کر رہے تھے۔

ترکوں نے ایرانیوں سے موجودہ جارجیا کا علاقہ بھی چھین لیا تھا۔ اسی طرح خلیج کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ اومان اور پھر یمن تک کا سارا علاقہ بھی ایرانی سلطنت سے الگ ہو کر عربوں کی مسلم خلافت کا حصہ بن گیا تھا۔ روم، ایران جنگ کا نقصان ان دونوں کو یہ ہوا تھا کہ ایک طرف ساسانی ایرانی ایمپائر تباہی کے دہانے پر آ گئی تو دوسری طرف رومن ایمپائر بھی اپنی طاقت کا رعب بمشکل تمام قائم رکھنے پر مجبور ہوئی۔ یہی وہ وقت تھا جب عرب سے آنے والا صحرائی لشکر دونوں عظیم سلطنتوں کے لیے موت کی مہر ثابت ہوا۔

یہ عرب صحرائی لشکر مسلم جنرل خالد بن ولید کی کمان میں تھا۔ خالد بن ولید کے لشکر کو ایرانیوں اور رومیوں سے پہلے عربوں کی ایک سلطنت سے دو دو ہاتھ کرنا پڑے۔ دراصل تیسری صدی تھرڈ سنچری میں دو عرب قبیلے یمن سے ہجرت کر کے عرب کے ایرانی اور رومن بارڈرز پر آباد ہو گئے تھے۔ شام اور اردن میں آباد ہونے والے عرب بنو غسان کہلاتے تھے۔ انہوں نے اپنی سلطنت قائم کی اور یہ سلطنت الغساسنہ کہلائی۔ الغساسنہ رومیوں کے باج گزار تھے۔ اسی طرح دریائے فرات کے مغربی کنارے پر جو یمنی آباد ہوئے وہ بنو لخم کہلاتے تھے۔ انہوں نے اللخمیون سلطنت قائم کی۔

اسے تاریخ میں المناذرۃ سلطنت بھی کہتے تھے۔ جزیرہ نما عرب کے کچھ علاقے بھی اس سلطنت کا حصہ رہے۔ یہ لوگ ایرانی ایمپائر کے باجگزار بن گئے، ان کے ماتحت آ گئے۔ ان دونوں سلطنتوں کی زیادہ تر آبادی عربوں کے مسلم لشکر سے مقابلے کے وقت عیسائیت قبول کر چکی تھی۔ عرب قافلے جب تجارت کی غرض سے نکلتے تھے شام اور عراق جاتے تھے، تو انھی عرب یمنی عیسائیوں کے علاقوں میں آتے تھے۔ یہاں سے انھیں عیسایت اور ایرانیوں کے مذہب زرتشت کے بارے میں کافی معلومات بھی ملتی تھیں۔ دن میں تجارت ہوتی تھی اور رات کی محفلوں میں لمبی گپ شپ کے دوران دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کی قدیم قصے کہانیاں اور حالات جانتے تھے۔

یعنی عربوں کو ان قبائل اور ان کی تاریخ کے بارے میں بہت اچھے سے علم تھا۔ تو خیر دوستو ایران کی ماتحت عراقی اللخمیون سلطنت کا دارالحکومت الحیرۃ تھا۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی کنارے پر موجودہ کوفہ شہر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع تھا۔ روم کے ساتھی بنو غسان کی سلطنت کا دارالحکومت موجودہ شام کا شہر بصریٰ الشام تھا۔ یہ دونوں سلطنتیں اپنے رومن اور ایرانی آقاؤں کو جنگوں کے دوران لڑنے کے لیے سپاہی مہیا کرتی تھیں۔ خاص طور پر یہ سپاہی گھڑسوار دستوں کی شکل میں ہوتے تھے جو دشمن کی جاسوسی اور چھاپہ مار کارروائیاں کرتے تھے۔

یہ دونوں سلطنتیں جزیرہ نما عرب اور روم و ایران کے درمیان ایک بفرزون کا کردار بھی ادا کرتی تھیں۔ عرب کے صحرا سے کوئی بھی لشکر ایران یا روم کی طرف آتا تو پہلے اسے ان دو میں سے کسی ایک سے ٹکرانا پڑتا تھا سکس ٹوئنٹی نائن میں اردن کے علاقے موتہ میں ہونے والی جنگ میں بھی یہی رومنز کے ساتھ بنو غسان نے ہی عرب لشکر کا سامنا کیا تھا۔ یہ جنگ اتنی خونریز تھی کہ تین عرب سالار ایک ایک کر کے جان کی بازی ہار گئے۔ آخر کار خالد بن ولید مسلم عرب فوج کو بچا کر واپس لے آئے تھے۔ اسی جنگ کے بعد پیغمبر اسلام نے انھیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا تھا۔

یعنی کچھ عرب قبائل ہی اسلامی خلافت اور روم و ایران کے درمیان حفاظتی دیوار بن کر کھڑے تھے۔ ان دونوں ایمپائرز تک پہنچنے کیلئے اس بفر زون کی دونوں حکومتوں کو گرانا ضروری تھا۔ عربوں کی خوش قسمتی یہ تھی کہ بفرزون کی یہ دونوں سلطنتیں اپنی پیرنٹ ایمپائرز کے کچھ اقدامات کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہو چکی تھیں۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ روم کی حکومت نے چھٹی صدی کے آخر میں اپنی باجگزار سلطنت الغساسنہ کے ایک حاکم المنظر پر ایرانیوں کی حمایت کا الزام لگا کر اسے جلاوطن کر دیا۔ بعد میں اس کے بیٹے کو بھی قید کر لیا گیا۔

جب بنو غسان نے بغاوت کی تو رومن فوج نے باغیوں کو سخت ترین انداز میں کچل کر رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے بنو غسان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ رومیوں سے نفرت بڑھنے لگی۔ رومیوں کے ظلم کے علاوہ ان کے رومیوں سے کچھ مذہبی اختلافات بھی شدید نوعیت کے تھے۔ اگرچہ رومن شہنشاہ اور الغساسنہ دونوں ایک ہی مذہب یعنی عیسائیت کے پیروکار تھے لیکن ان کے فرقے الگ الگ تھے۔ رومن شہنشاہوں کا عقیدہ یہ تھا کہ کرائسٹ یعنی حضرت عیسیٰ خدا بھی ہیں اور انسان بھی۔ جبکہ بنو غسان کا عقیدہ یہ تھا کہ کرائسٹ صرف گاڈ ہیں انسان نہیں۔

رومن شہنشاہ چاہتے تھے کہ بنو غسان بھی ان کا عقیدہ ان کا فرقہ اپنا لیں۔ یمنی عرب اس پر جھگڑا کرتے تھے، وہ نہیں مانتے تھے سو اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے گئے۔ آپ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ اختلافات بہت شدید ہوتے ہیں تو وہ یہاں پر پیدا ہو چکے تھے۔ رومنز کی طرح ایرانی حکمرانوں نے بھی اپنے یمنی حامیوں یعنی اللخمیون کو دشمن بنا لیا تھا۔ وہ اس طرح کہ خسرو پرویز نے چھے سو دو سی ای میں بنو لخم کے حکمران النعمان تھرڈ کو قتل کروا دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بنو لخم پر ایک کٹھ پتلی حکمران کو مسلط کر دیا۔

عرب علاقوں میں ایرانی کمانڈرز اور فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے اور اس علاقے کی خودمختاری ختم ہو گئی۔ اس پر یمنیوں کے ایک حصے نے ایرانیوں کے خلاف بغاوت کر دی اور عرب سے اپنے حامی قبائل کو بلا کر ایرانیوں پر دھاوا بول دیا۔ چھے سو نو سی ای میں جنوبی عراق میں باغی یمنیوں اور ایک ایرانی لشکر کی بڑی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں یمنی لشکر نے ایرانیوں کو شکستِ فاش دی اس جنگ کو “معرکہ ذی قار” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک فیصلہ کن فتح ثابت نہیں ہوئی۔ یمنی لشکر نے اس فتح کے بعد کٹھ پتلی حکمران کے مرکز الحیرۃ شہر پر قبضے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور وہ اسے فتح نہیں کر سکے۔ سو یمنیوں کے ساتھی عرب قبائل صحرا کی طرف لوٹ گئے۔

یوں مغربی عراق پر ایرانیوں کا قبضہ تو برقرار رہا لیکن بنولخم کے بہت سے لوگ اب اپنی حکومت سے بددل بھی ہو گئے۔ مختصر یہ کہ روم اور ایران کے درمیان یہ جو یمنی عربوں کی ایک دیوار کھڑی تھی ایک طاقتور بفر زون تھا، یہ کمزور ہو چکا تھا۔ یہ بفرزون اب پہلے جیسا مضبوط نہیں رہا تھا۔ شام، اردن اور عراق میں رہنے والے عرب قبائل رومنز اور ایرانیوں کی حکومت کے خلاف ہو چکے تھے۔ اب انہیں کسی تیسری طاقت کا انتظار تھا جس کے ساتھ مل کر وہ اپنے رومن اور ایرانی آقاؤں سے پرانے حساب چکتا کر سکیں۔ ان ناراض یمنی عربوں کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ جزیرہ نما عرب میں جلد ہی ایک نئی طاقت ابھری۔

یہ طاقت تھی مسلم خلافت۔ چھے سو بتیس، سکس تھرٹی ٹو سی ای میں عرب کی خلافتِ اسلامیہ طاقتور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق پہلے خلیفہ اسلام تھے۔ منصب سنبھالتے ہی کچھ عرصہ انہیں بغاوتوں کو کچلنے اور خلافت کو مستحکم کرنے میں لگ گیا۔ بغاوتوں سے نمٹنے کے بعد خلیفہ اول نے ایرانی اور رومن ایمپائرز پر توجہ دی اور سب سے پہلے عراق کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا جو ایرانیوں کے کنٹرول میں تھا۔ مائی کیوریس فیلوز یہاں آپ کو اس دور کے عراق کی ایک جھلک دکھاتے ہیں جس سے آپ کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ہسٹورین آغا ابراہیم اکرم لکھتے ہیں کہ عراق اپنی ثقافت، دولت اور خوراک کی کثرت کی وجہ سے ایرانی ایمپائر کا سب سے قیمتی، موسٹ پرائزڈ صوبہ تھا۔

بنجر صحراؤں سے تعلق رکھنے والے عربوں کے حساب سے یہ ایک سر سبز جنت تھی۔ ایک ایسی سرزمین تھا جس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ اس میں دجلہ اور فرات جیسے بـڑے دریا رواں تھے۔ عراق کی زرخیزی اور خوشحالی کی بدولت ہی ایرانیوں نے یہاں اپنا دارالحکومت المدائن بسایا تھا۔ اب عرب خلافت اس علاقے کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔ عراق کے قریب رہنے والے عرب قبائل بھی اس پر حملے کیلئے بے چین تھے۔ دورخلافت کے بالکل آغاز میں ہی ایک عرب سردار نے مدینہ آ کر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کو عراق پر حملے کی دعوت دی۔ یہ عرب سردار مثنیٰ بن حارثہ الشیبانی تھے۔

مثنیٰ بن حارثہ بنی بکر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ، ایرانی شہنشاہیت کے ساتھ والی اللخمیون ایمپائر کے قریب ہی آباد تھا۔ مثنیٰ بن حارثہ گھڑسواروں کے ایک گروپ کے ساتھ عراق میں چھاپہ مار کارروائیاں کر چکے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایرانی فوج کی کمزوریوں کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تھا۔ مقامی آبادی کے اپنے ایرانی آقاؤں سے خراب تعلقات بھی ان کے سامنے تھے۔ پھر عراق سے انہیں بہت سا مالِ غنیمت بھی ملا تھا۔ یہ مالِ غنمت اور انٹیلی جنس معلومات لے کر مثنیٰ بن حارثہ خلیفہ اول کے پاس پہنچے۔

انھوں نے یہاں پہنچ کر درخواست کی کہ مجھے ان پر یعنی میری قوم میں جو اسلام لے آئے ہیں ان پر سردار بنا دیجئے میں عجمیوں سے جنگ کروں گا۔ حضرت ابوبکر نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی اور انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو ایک اتھارٹی لیٹر لکھ دیا۔ مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے وطن واپس آ کر اپنے لوگوں کو کامیابی سے اسلام کی طرف مائل کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً دو ہزار جوانوں کا ایک لشکر تیار کیا۔ تاریخِ طبری کے مطابق وہ اس لشکر کے ساتھ عراق میں کبھی کسکر کے ایک حصے پر اور کبھی دریائے فرات کے مغربی حصے پر حملے کرتے تھے۔

لیکن ادھر خلافت میں خلیفہ وقت کو تھوڑی پریشانی تھی۔ کیونکہ مثنیٰ بن حارثہ کو عراق کی مہم پر بھیجنے کے باوجود خلیفہ اول اسے ناکافی سمجھتے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ ایران اور اس کے ساتھ شام پر فیصلہ کن حملے کا یہی وقت ہے اور مثنیٰ الشیبانی ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے کافی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے انتہائی تجربہ کار اور منجھے ہوئے سالار خالد بن ولید کو ایک خط لکھا۔ خالد بن ولید اس وقت عرب علاقے یمامہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہاں انہوں نے ابھی ابھی نبوت کے ایک عرب دعویدار مسیلمہ بن حبیب کذاب کو شکست دی تھی۔

خلیفہ اول نے انہیں لکھا کہ تم شام چلے جاؤ اور عراق سے گزرتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کرو۔ انہوں نے خالد بن ولید کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ عراق میں “ابلہ” کے علاقے میں کارروائیاں شروع کریں۔ ان کا ٹارگٹ ایرانی کنٹرول والی یمنی سلطنت اللخمیون کا دارالحکومت الحیرۃ ہو گا۔ چنانچہ خالد بن ولید یمامہ سے عراق روانگی کی تیاریاں کرنے لگے۔ لیکن روانگی سے پہلے ہی ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج آ کھڑا ہوا۔ یہ چیلنج کیا تھا؟ خلیفہ اول نے خالد بن ولید کو ہدایت کی تھی کہ ان کے لشکر کے جو سپاہی اپنے گھر جانا چاہیں انہیں نہ روکا جائے۔

خالد بن ولید نے خلیفہ کے حکم کے مطابق عرب فوجیوں کو عراق روانگی کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو گھر جانا چاہے جا سکتا ہے خلیفہ کی طرف سے اجازت ملتے ہی ہزاروں عرب سپاہی تاریخ طبری کے مطابق اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ وہ سپاہی تھے جو کئی مہینوں سے جنگوں میں مصروف تھے اور خالد بن ولید کی کمان میں بغاوتیں کچل رہے تھے۔ لہٰذا خلیفہ کی طرف سے اجازت ملتے ہی وہ چلے گئے۔ خالد بن ولید کے پاس صرف دو ہزار جوانوں کا ایک دستہ باقی رہ گیا۔ اب خالد بن ولید کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ وہ لشکر کی اس کمی کو کیسے پورا کریں۔

انہوں نے فوری طور پر خلیفہ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ ان کی مدد کیلئے مزید فوج بھیجی جائے۔ جواب میں خلیفہ نے ان کی مدد کیلئے جانتے ہیں کتنی فوج بھیجی؟ صرف ایک آدمی۔ جی ہاں صرف ایک شخص۔ یہ ون مین آرمی کون تھا؟ ہوا یہ کہ جب خالد بن ولید کا خط خلیفہ اول کو ملا تو اس وقت وہ اپنے دوستوں اور مشیروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے خالد بن ولید کا خط باآوازِ بلند پڑھا۔ پھر انہوں نے ایک نوجوان قعقاع بن عمرو کو خالد بن ولید کی مدد کیلئے جانے کا حکم دیا۔ قعقاع بن عمرو گھر گئے، اپنے جسم پر ہتھیار سجائے اور اپنا سامان باندھ کر خلیفہ کے پاس پہنچ گئے۔

حاضرینِ محفل حیرت زدہ تھے۔ آخر کسی نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کمک کے نام پر خالد بن ولید کے لیے صرف ایک سپاہی بھیجیں گے؟ خلیفہ اول نے کہا کہ جس فوج میں ایسا بہادر موجود ہو گا اسے کبھی شکست نہیں ہو سکتی۔ ان الفاظ کے ساتھ قعقاع بن عمرو نے خلیفہ وقت کو الوداع کہا اور خالد بن ولید کے لشکر میں شامل ہونے کیلئے یمامہ چلے گئے۔ خلیفہ نے مدینہ سے تو خالد بن ولید کے پاس صرف ایک آدمی بھیجا تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ اور ایک دوسرے طاقتور سردار مذعور بن عدی کو بھی خطوط لکھ تھے۔

ان دونوں سرداروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنے لشکروں کے ساتھ خالد بن ولید کی فوج میں شامل ہو جائیں۔ خالد بن ولید نے خود بھی ان دونوں سرداروں کو خطوط لکھے اور ساتھ ہی حرملہ اور سلمیٰ نامی دو اور سرداروں کو بھی خطوط بھیج دیئے۔ اس کے علاوہ خالد بن ولید نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے خود بھی فوج بھرتی کرنا شروع کی۔ جلد ہی انہوں نے اپنے دو ہزار سپاہیوں کے علاوہ آٹھ ہزار مزید عرب جنگجو بھرتی کر لئے۔ اس طرح ان کی فوج کی تعداد دس ہزار ہو گئی۔ پھر جن چاروں سرداروں کو انہوں نے خط لکھے تھے وہ بھی ان سے آ ملے۔

ہر سردار کے پاس کم و بیش دو، دو ہزار کا لشکر تھا۔ یوں خالد بن ولید کی فوج کی تعداد اٹھارہ ہزار ہو گئی۔ اب خالد بن ولید اپنے پہلے ٹارگٹ کی طرف یعنی ابلہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ شہر دوستو دجلہ و فرات کے سنگم سے تھوڑا آگے خلیج فارس کی طرف آباد تھا۔ یہ ایرانی ایمپائر کی اہم ترین دریائی بندرگاہ تھی۔ خلیج فارس کے راستے ایرانیوں کی ساری تجارت اسی شہر سے ہوتی تھی۔ چین اور ہندوستان تک سے تجارتی بحری جہاز یہاں آتے تھے۔ نقشے پر دیکھیں تو ایرانیوں کے دارالحکومت المدائن تک پہنچنے کا یہی قریب ترین بحری راستہ تھا۔

یعنی ابلہ ایرانی ایمپائر کی تجارتی شہ رگ، لائف لائن تھا۔ خالد بن ولید اب اسی شہ رگ کو کاٹنے والے تھے۔ لیکن اس شہ رگ کو کاٹنے کیلئے انہیں پہلے اس کے چوکیدار کا مقابلہ کرنا تھا جس کا نام تھا ہرمز۔ ہرمز ایک ایرانی جنرل تھا جو ابلہ کا گورنر تھا۔ یہ شخص ایران کے معزز ترین لوگوں میں شامل تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ایرانی شہنشاہ کے بعد جو لوگ سب سے معزز ہوتے تھے وہ سر پر ایک دستار پہنتے تھے۔ جو کیپ پہنتے تھے اس کی قیمت ایک لاکھ درہم ہوتی تھی۔ اس کیپ میں ہیرے، موتی اور دیگر قیمتی پتھر جڑے ہوتے تھے۔

ہرمز کے پاس بھی وہی قیمتی ایک لاکھ درہم والی کیپ تھی یعنی وہ شہنشاہ کے بعد ایرانی سلطنت کا اہم اور طاقتور ترین شخص تھا۔ اس سینئر موسٹ ایرانی جنرل کو عرب زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ ویسے یہ نامور یا آپ بدنام کہہ لیں عرب میں بہت زیادہ تھا تاریخِ طبری میں لکھا ہے کہ عربوں میں کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص ہرمز سے بڑھ کر خبیث اور کافر ہے۔ خالد بن ولید نے جنرل ہرمز کا مقابلہ کرنے سے پہلے اسے ایک خط لکھا۔ خط میں انھوں نے ہرمز کو تین آپشنز دئیے۔ پہلا یہ کہ اسلام قبول کر لو اور سلامت رہو۔

دوسرا یہ ہے کہ جزیہ ادا کرو تا کہ بدلے میں تمہیں اپنی اور اپنی قوم کیلئے حفاظت کی ضمانت مل جائے۔ تیسری آپشن یہ کہ اگر پہلی دونوں قبول نہیں تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ کیونکہ میں تمہارے مقابلے کیلئے ایسی قوم کو لایا ہوں جو موت کو اتنا ہی پسند کرتی ہے جتنا تم زندگی کو۔ ہرمز نے یہ شرائط ٹھکرا دیں اور مقابلے کی تیاری کرنے لگا۔ دوستو یہاں سے ان عرب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس نے بالآخر روم اور فارس کو تخت و تاراج کر دیا۔

خالد بن ولید نے ہرمز کے مقابلے کے لیے کیا تیاری کی؟ کون سی جنگی چالیں تھیں جنھوں نے ہرمز کو پریشان کر کے رکھ دیا؟ اس جنگ کا مکمل احوال نقشوں اینی میشنز اور مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ آپ کو دکھائیں گے لیکن دا گریٹ جنرلز آف ہسٹری کے اگلے حصے میں۔