تاریخ بنگال
History Of Bengal Part 1
چودہ سو بیانوےمیں جب امریکہ کی دریافت عام ہوئی اور یورپی طاقتوں نے اسے اپنی کالونیز میں بانٹ لیا تو اس سے عالمی سطح پر طاقت کی ایک نئی گریٹ گیم شروع ہو گئی. یورپی طاقتوں نے دنیا بھر میں ایسے علاقے اور اقوام تلاش کرنا شروع کیں جہاں وہ قبضہ کر سکیں اور وہاں کی دولت سے اپنی امپایرز کو طاقتور بنا سکیں.
اس فوجی اور تجارتی مقابلے لڑائی میں یورپ کی دو طاقتیں یعنی برطانیہ اور فرانس سب سے آگے تھیں. دنیا کے ہر دوسرے محاذ پر یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچی ہوئی تھیں. سترہ سو پچاسکے عالمی نقشے کو دیکھیں تو آپ کو ان دونوں کی افواج ہر اہم جگہ پر لڑتی ہوئی نظر آئیں گی.
Join Us On Telegram
امریکہ اور کینیڈا کے برف پوش پہاڑوں اور میدانوں میں یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بارود پھونک رہے تھے تو یہاں ہندوستان کے گرم میدانوں میں بھی ان کی تلواریں ٹکرا رہی تھیں. خاص طور پر ہندوستان کے سامنے بنگال کے سنہرے سونے پر بھی دونوں یورپی طاقتوں کی لالچی نظریں ٹکی ہوئی تھیں.
دونوں کے جاسوس بھی ایک دوسرے کے خلاف ہر علاقے میں متحرک تھے. انہی حالات میں سترہ سو پچپن کے قریب ایک نامعلوم شخص نے انگریزوں کو ایسی معلومات دیں جس نے آگے چل کر بنگال سے آزادی چھین لی. نومبر سترہ سو پچپن میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو فرانس سے ایک نامعلوم شخص نے بہت ہی اہم انٹیلیجنس فراہم کی.
تاریخ میں گمشدہ یہ شخص نئی نئی ایجاد ہونے والی ٹیلی سکوپ سے کچھ شغل کر رہا تھا. یوں ہی دیکھتے دیکھتے اس نے فرانس کے دریا سکواف کی طرف ٹیلی سکوپ کا رخ کیا تو وہاں اس کے لیے ایک غیر متوقع منظر تھا. اس نے دیکھا کہ دریائے سوف کے قریب اسلحے سے لیس فرانسیسی فوج موجود ہے.
یہ منظر کر لگتا تھا کہ وہ فوجی کسی مہم کی تیاری کر رہے ہیں. اس گمنام ٹیلی سکوپ والے نے ان جہازوں میں بڑی تعداد میں اسلحہ اور توپیں بھی دیکھ لیں. یہ نظارہ اس کے لیے بہت دلچسپ تھا. اس لیے اس نے اس منظر کی جزیات تک جاننے کی کوشش کی.
یعنی اس نے اندازہ لگایا کہ فوجیوں کی تعداد کیا ہے سازوسامان کیا ہے اور کتنا ہے؟ اب دوستوں یہاں تک تو سب ٹھیک تھا کہ اس نے اپنے کیوریس مائنڈ کو تسکین دی لیکن تاریخ کا دھارا اس وقت پلٹا جب یہ بظاہر سادہ سی معلومات ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ لگے اور سادہ نہیں رہی.
یہ دراصل سٹریٹجک نوعیت کی معلومات تھیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بہت ہی اہم تھیں. یہ معلومات فرانس میں موجود اس نوجوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی تک کیسے پہنچی؟ہم وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ٹیلی سکوپ والا یہ نوجوان تاریخ کے دھارے میں کہیں فراموش ہو چکا ہے.
اس کا ریکارڈ موجود نہیں اور کوئی کریڈیبل معلومات بھی ایسی نہیں کہ ہم اس راز کا پتہ چلا سکیں. بہرحال یہ انتہائی غیر معمولی معلومات تیرہ فروری سترہ سو چھپن کے دن لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کے سامنے سب سے اہم موضوع تھا. ایڈن ہال سٹریٹ پر واقعہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز پریشان تھے اور تجسس سے رپورٹ پڑ رہے تھے.
انہیں لگتا تھا کہ فرانسیسی فوج برطانیہ کے خلاف کوئی نیا محاذ کھولنے کی تیاری کر رہی ہے. کیونکہ جو معلومات اس گمشدہ شخص سے ملی تھیں وہ کسی معمول کے سفر والی نہیں تھیں بلکہ ڈائریکٹرز کو شک ہو رہا تھا کہ فرانسیسی فوج ہندوستان میں برطانوی مفادات کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے.
پھر یہ کہ اگر یہ پلاننگ ہو رہی ہے تو فرانسیسی ہندوستان میں انگریزوں کے دو اہم ترین پوائنٹس میں سے کس پوائنٹ پر کرے گا. مدراس یا کلکتہ یہ بھی انگریزوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا. اب دیکھیے کہ فرانس کا ایک گورنر جنرل جوزف ڈوپلیکس ہندوستان کے جنوبی علاقوں کا نگران تھا اور وہ انگریزوں کو ہندوستان سے بھگا دینا چاہتا تھا.
کمپنی بہادر اس فرانسیسی گورنر سے پریشان بہرحال رہتی تھی. کیونکہ صرف دس سال پہلے سترہ سو چھیالیس میں یہی فرانسیسی گورنر انگریز فوج کو جنوبی ہندوستان کے علاقے مدا رس دھول چٹا چکا تھا. اس گورنر کی قیادت میں فرانسیسی فوج نے قریب قریب مدراس سے انگریزوں کا صفایا کر دیا تھا کیونکہ صرف ایک قلعے کے سوا مدراس میں انگریزوں کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا.
یہ قبضہ واپس لینے کے لیے انگریزوں کو بہت بھاری قیمت فرانسیسیوں کو ادا کرنا پڑی تھی. یعنی مدراس واپس لینے کے لیے انگریزوں نے کینیڈا کا ایک علاقہ لوئز برگ انہیں دے دیا تھا. سو یہ تاریخ کمپنی کے ڈائریکٹرز کو یاد تھی. اس لیے وہ اس گورنر سے خوفزدہ تھے اور پریشان بھی تھے. اب اس کے بعد کلکتہ کو دیکھیے کہ وہ بھی انگریزوں کے لیے مرکز کا درجہ رکھتا تھا.
یہی انگریزوں کا ہندوستان میں اہم ترین قلعہ فورٹ ویلیم تھا. یہ قلعہ سولہ سو چھیانوے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی اجازت سے تعمیر کیا تھا لیکن تجارت کی غرض سے مقاصد کے لیے نہیں.مگر اب نصف صدی کے بعد یہی تجارتی قلعہ ان کی طاقت اور ہندوستان پر قبضے کا مرکز بنتا جا رہا تھا.
یہی انگریز گورنر راجر ڈریک انچارج تھے اور کمپنی بہادر کا یعنی انگریزوں کا کاروبار چلاتے تھے. سو انگریز ان دونوں شہروں کو مدراس اور کلکتہ کو بچانے کے لیے پریشان تھے لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ فرانسیسی حملہ کہاں سے کریں گے؟اسی کشمکش نے طے کیا کہ وہ اس دوربین والے کی انٹیلی جنس کو سنجیدگی سے لیں گے اور چاہے کچھ بھی کرنا پڑے.
History Of Bangaal Part 2
وہ فرانسیسیوں سے اس بار کوئی ہزیمت نہیں اٹھائیں گے. چنانچہ کمپنی کے ڈائریکٹرز نے لندن سhttps://www.stvurdu.com/bengalp1/ے ہندوستان میں یعنی بنگال کے قلعے فورٹ ویلیم میں اپنے گورنر راجر ڈریک کو اطلاع بھیجی. انہیں بتایا گیا کہ فرانس کی طرف سے حملے کا خدشہ ہے سو جنگ کی مکمل تیاری رکھی جائے کسی بھی وقت کسی بھی طرف سے فرانسیسی فوج اچانک حملہ کر سکتی ہے.
bengalbengalbengalbengalbengalbengalbengalbengalbengalbengal
Hl