Bangaal

History Of Bangaal Part 9

-Advertisement-

تاریخ بنگال

History Of Bangaal Part 9

سترہ سو ستاون کے شروع میں انگریزوں کے بہترین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل لارڈ کلائیو نواب سراج الدولہ کے خلاف ایک اہم مشن پر بنگال آچکے تھے. انہوں نے کلکتہ میں نواب آف بنگال کے گورنر راجہ مانک چند کو بھی شکست دے کر فورٹ ویلیم واپس چھین لیا تھا. ان کے پاس ایک گن براؤن بیس تھی جس کا مقابلہ پرانے دور کے ہتھیار نہیں کر سکتے تھے. وہ بنگال کی غیر ملٹری آبادی کو لوٹ مار کا نشانہ بھی بنا چکے تھے.

ایسے میں نواب آف بنگال سراج الدولہ نے انگریزوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا. تئیس سالہنواب سراج الدولہ کو بطور نواب آف بنگال ان کے کچھ سازشی درباریوں نے پہلے دن سے قبول نہیں کیا تھا. ان درباریوں میں سپہ سالار جنرل میر جعفر کا نام سرفہرست تھا. وہ دراصل سراج الدولہ کے نانا علی وردی کے دور سے ہی بنگال کے تخت پر قبضے کا سوچ رہے تھے.

-Advertisement-

Join Us On Telegram

وہ نواب علی وردی کو قتل کر کے بنگال کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اپنے ساتھیوں سے انہوں نے مشاورت بھی کی تھی. لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وردی کا دبدبہ اور روب اتنا تھا کہ میر جعفر کو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ سازشی جمع کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا. پھر کسی طرح میر جعفر کی سازشوں کی بھنک نواب علی وردی کو بھی ہوگئی تھی.

-Advertisement-

اس پر نواب نے میر جعفر کو اپنے محل میں طلب کیا اور بھرے دربار میں ان کی عزت کے پرخچے اڑا دیے. اس کے بعد انہوں نے میر جعفر کے دربار میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی. تاہم عرصے بعد میر جعفر معافی تلافی کروا کر اپنی خطا معاف کروانے میں کامیاب ہوئے. جس کے بعد نواب علی وردی نے انہیں بخشی فوج کا عہدہ بھی دے دیا.

-Advertisement-

یعنی وہ فوج کی تنخواہوں وغیرہ کے امور دیکھنے لگے. یہی سے دوستوں وہ پھر ترقی کرتے ہوئے بنگالی فوج کے سپہ سالار یعنی جنرل یا سپریم کمانڈر بھی بن گئے. لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ فوج کو براہ راست تن تنہا کمان کرتے تھے. فوج بہرحال نواب آف بنگال کو فالو کرتی تھی لیکن میر جعفر سینئر ترین جنرل تھے اور براہ راست فوج کے صرف ایک بڑے حصے کو کمان کرتے تھے.

نواب علی وردی کے بعد ان کے جانشین نواب سراج الدولہ نے بھی سپہ سالار میر جعفر کو عہدے پر برقرار تو رکھا لیکن ان پر کبھی اندھا اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ اٹلنی کے کمانڈر جنرل میر مدن کو زیادہ وفادار سمجھتے تھے اور انہیں ہی زیادہ تر فوجی معاملات میں مشیر بھی بناتے تھے لیکن یوں تھا کہ نواب علی وردی کے بعد جب ان کے جواں سال نواسے سراج الدولہ نے بنگال کا تخت سنبھالا تو میر جعفر کو بطور سینئر جنرل ان سے بہت سے توقعات وابستہ تھیں.

کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ سراج الدولہ تو ان کے ہاتھوں کے پالے ہوئے بچے ہیں. اسی لیے جب نواب سراج الدولہ نے کلکتہ اور فورٹ ویلیم پر قبضہ کیا انگریزوں سے اسے چھین لیا تو میر جعفر اس پورے علاقے کا گورنر بننا چاہتے تھے اور امید لگائے بیٹھے تھے. لیکن سراج الدولہ نے میر جعفر کے بجائے اس اہم قلعے اور کلکتہ کا کمانڈر راجہ مانک چند کو بنا دیا تھا.

میر جعفر کو اس سے بہت بڑا دھچکا لگا. اس کے علاوہ بھی انہیں نواب سراج الدولہ سے کئی گلے شکوے پیدا ہو گئے تھے جن کے ازالے کے لیے اب انہوں نے ایک بار پھر سازشوں کا سہارا لینا شروع کر دیا.نواب سراج و دولہا میر جعفر کی سازشیں طبیعت سے آگاہ ہونے کے باوجود طور پر انہیں اہم عہدے سے الگ نہیں کر سکتے تھے.

وجہ یہ تھی کہ وہ ایک طاقتور جنرل کو براہ راست اور علی الاعلان اپنے دشمنوں کی صف میں کھڑا کر دیں. ان وقتوں میں اکثر بادشاہ اور نواب اپنے مخالفین کو بھی عہدے اور مختلف لالچ دے کر اپنے قریب رکھتے تھے یا دوسرے الفاظ میں ان کی وفاداریاں خرید کر ان کی سازشوں سے بچنے کی کوششیں کرتے تھے.

ایسے ہی نواب علی وردی اور اب سراج الدولہ کی تھیں کہ انہوں نے میر جعفر اور ان جیسے کئی لوگوں کو دربار سے الگ نہیں کیا تھا. جب نواب سراج الدولہ کلکتہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو سازشی درباری بھی خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے. سازشی درباریوں کا مستقبل دراصل کلکتہ میں نواب کی کامیابی یا ناکامی سے جڑ چکا تھا.

اگر نواب کلکتہ میں کامیاب ہو جاتے تو سازشیوں کی سازشیں دم توڑ جاتی لیکن اگر اس کے برعکس نواب سراج الدولہ انگریزوں سے ہار جاتے تو سازشیوں کو اپنے منصوبوں میں رنگ بھرنے کا پورا موقع مل جاتا.لارڈ کلائیو نے کلکتہ پر جنوری سترہ سو ستاون میں قبضہ کیا تھا. اگلے ہی ماہ چار فروری کو نواب سراج الدولہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ کلکتہ کے قریب پہنچ چکے تھے.

یہاں انہوں نے نشاط باغ کے علاقے میں قیام کیا اور کلکتہ کو پھر سے محاصرے میں لے لیا یہ اس معرکہ کی شروعات تھیں جس نے بنگال اور ہندوستان کی تاریخ کا فیصلہ کرنا تھا. نواب سراج الدولہ کی ساٹھ ہزار فوج کے سامنے کرنل کلائیوکے تین ہزار فوجیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی. دشمن پوری طرح سے سراج الدولہ کے گھیرے میں تھا لیکن اس موقع پر لارڈ کلائیو نے کچھ ایسا کیا جو سراج الدولہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.

کہ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جس میں اگر کھلاڑی اپنے مقابل کے بادشاہ کو گھیر لے تو شہ مات ہو جاتی ہے. یعنی بادشاہ کو گھیرنے والا اپنے مقابل کھلاڑی سے جیت جاتا ہے.لارڈ کلائیو بھی نواب کے ساتھ یہی شطرنج کا یہ کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہے تھے.

وہ جانتے تھے کہ نواب کی طاقتور فوج کے سامنے ان کے پاس جیتنے کا کوئی موقع نہیں. چنانچہ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ بادشاہ کو تنہا ہی گھیر لیا جائے اسے پکڑ لیا جائے تاکہ ساری بازی اپنے حق میں آسانی سے پلٹا جا سکے.مشن یہ تھا کہ نواب کے کیمپ پر اچانک شب خون مارا جائے یعنی رات کو اچانک حملہ کیا جائے تاکہ تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد ہی انہیں زندہ پکڑا جا سکے.

History Of Bangaal Part 10

ایک بار نواب سرا ج الدولہ لارڈ کلائیو کے ہاتھ آجاتے تو وہ ان سے جو چاہتے منوا سکتے تھے. چنانچہ انہوں نے فوری طور پر اپنے اس منصوبے پر عمل شروع کر دیا. سب سے پہلے انہوں نے بات چیت کے بہانے اپنے کچھ ایلچی سراج الدولہ کے کیمپ میں بھیجے.

BangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaal

-Advertisement-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *