bangaal

History Of Bangaal Part 2

-Advertisement-

تاریخ بنگال

History Of Bangaal Part 2

انگریز گورنر کو یہ انٹیلی جنس بھی دی گئی کہ فرانسیسی کمپنی کے گیارہ جہازوں کا بیڑہ تین ہزار فوجیوں کو لے کر روانہ ہو چکا ہے. اور عین ممکن ہے کہ اس بیڑے کی منزل جنوب مشرقی ساحل یا پھر بنگال ہو. راجرڈریک کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ اپنے نبوب یعنی بنگال کے نواب علی وردی سے بھی رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ بنگال میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان متوقع جنگ رکوانے کی کوشش کریں اور اگر کوئی تنازعہ ہو جائے تو وہ کسی ایک گروپ کا ساتھ نہ دیں کیونکہ اسی میں ان کا فائدہ بھی ہے.

اس کے بعدایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے سب سے اہم مرکز کلکتہ میں اپنی حفاظت کے لیے انتظامات کرنا شروع کر دیے. یہاں ان کے پاس پہلے سے فوج اور اسلحہ موجود تھا لیکن اب مزید انچاس توپیں کلکتہ منگوا لی گئیں. قلعہ بندی کا جس کی بنگال کے نواب اجازت دینے کو تیار نہیں تھے کیونکہ قلعہ بندی کی تعمیر باہمی معاہدے کے خلاف بات تھی.

-Advertisement-

Join Us On Telegram

چنانچہ اس پر بنگال کے نواب علی وردی نے شدید اعتراض کیا اور انگریزوں کو خبردار کیا کہ وہ ایسی تعمیرات نہ کریں جو جنگ کی غرض سے کی جاتی ہیں. یہ وہ موقع تھا جب انگریزوں اور برصغیر کی سب سے امیر ریاست بنگال کے نواب میں کھٹ پٹ شروع ہو گئی. وہ کھٹ پٹ جس نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی.

-Advertisement-

اور یہ اس کہانی کا وہ موڑ ہے جس کے سب سے اہم کھلاڑی نواب علیوردیہیں. مائیکروس فیلوز نواب علی وردی کون تھے? دراصل سترہ سو چالیس کی دہائی یعنی سیونٹین فورٹیز میں جب مرہٹوں نے دہلی پر لشکر کشی کی اور مغل سلطنت کمزور ہوگئی تو نواب علی وردی خان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا.

-Advertisement-

انہوں نے بنگال کو مغل سلطنت سے الگ کر لیا. نواب علی وردی کے دور میں کلکتہ سے دو سو کلومیٹر دور مرشد آباد بنگال کا دارالحکومت تھا.تو اسی مرشد آباد میں نواب علی وردی دربار لگاتے تھے.لیکن یہ راج انہیں ورثے میں نہیں ملا تھا. انہوں نے بنگال کا تخت سابق حکمران شجاع الدین محمد خان کے جانشینوں سے بغاوت کر کے چھینا تھا.

جبکہ نواب شجاع الدین کی زندگی میں نواب علی وردی ان کے ساتھی بھی رہ چکے تھے. لیکن اس کامیاب بغاوت کے پیچھے ان کے ساتھ بنگال کی اسٹیبلشمنٹ بھی تھی. اب یہ کیا تھی? دراصل بغاوت کے لیے علی وردی کو بنگال کے جگت سیٹھ بینکرز نے بھرپور مدد فراہم کی تھی.

جگت سیٹھ ایک ہندو ساہوکار خاندان تھا جس کے پاس ایک اندازے کے مطابق لندن کے بینکرز سے بھی زیادہ دولت تھی یہ خاندان محلاتی اور درباری سازشوں میں پیش پیش رہتا تھا اور بڑی دولت خرچ کر کے اپنی مرضی کے لوگوں کو اقتدار میں لاتا تھا. بنگال میں اس خاندان کی مرضی یا ان کی حمایت کے بغیر کسی کا حکومت کرنا ناممکن تھا.

یہ خاندان اپنی پسند کے لوگوں کو اقتدار میں لا کر پھر ان سے مالی فائدے حاصل کرتا تھا. اور اس کے لیے یہ بدنام تھا. علی وردی کو بھی یہی لوگ اقتدار میں لائے تھے تاکہ معاشی فائدے اٹھا سکیں. لیکننواب علی وردی کو اقتدار بھلے ہی بغاوت کے نتیجے میں ملا تھا لیکن انہوں نے خود کو ایک قابل حکمران ثابت کیا.

انہوں نے اپنے دور میں بنگال کو درپیش چیلنجز کا فاتحانہ مقابلہ کیا. اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑی اور طاقتور امپائر مرہٹوں کی سلطنت تھی. یہ طاقتور مرہٹہ سلطنت بنگال کے ہمسائے میں تھی. مرہٹوں کے لشکر آئے روز بنگالی علاقوں پر ٹوٹے پڑتے تھے. ان کو روکنے کے لیے بھرپور طاقت چاہیے ہوتی تھی.

پھر کہ انگریز اور دوسری یورپی اقوام بھی بنگال میں اپنے تجارتی مراکز قائم کر کے اپنی طاقت بڑھاتی جا رہی تھیں. تو نواب علی وردی نے بنگال کو درپیش ان تمام خطرات کا بہادری سے مقابلہ کیا. انہوں نے پہلے تو دہلی کے مغل دربار سے خود کو الگ کیا اور بنگال کو ایک خود مختار ریاست بنایا. پھر انہوں نے مرہٹوں کے خطرے پر توجہ دی.

شروع میں تو انہوں نے مرہٹوں کا میدان جنگ میں مقابلہ کیا اور انہیں کسی حد تک روکا بھی لیکن وہ دیکھ رہے تھے کہ مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست دینا ممکن نہیں. چنانچہ انہوں نے ایک معاہدے کے تحت اڑیسہ کا صوبہ اور ایک طے شدہ اخراج مرہٹوں کو دے کر طاقتور ہمسایہ سلطنت سے امن قائم کر لیا.

اس کے بعد انہوں نے انگریزوں, فرانسیسیوں اور پرتگالی سمیت تمام کاروباری اقوام کو بنگال میں پرامن رہتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دے دی. یوں انہوں نے ڈپلومیسی اور معاہدوں کے ذریعے بنگال کو محفوظ ریاست بنا لیا. علی وردی نے سترہ سو چالیس سے سترہ سو چھپن تک تقریبا سولہ برس بنگال پر حکومت کی.

ان کے دور میں بنگال اتنا خوشحال ہو گیا تھا کہ دیکھنے والے رشک کرتے تھے. خاص طور پر علی وردی کے دور حکومت کے آخری سالوں کو سنہرا دور گولڈن ایرا آف بنگال بھی کہا جاتا ہے. بنگال کی خوشحالی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ دنیا بھر میں بنگالی پروڈکٹس کی مانگ بڑھ گئی تھی. دس لاکھ ون ملین سے زیادہ مزدوروں کا روزگار ٹیکسٹائل انڈسٹری سے جڑا ہوا تھا.

بنگال سے گنے اور افیون کی ایکسپورٹ بھی بڑے پیمانے پر ہوتی تھی کیونکہ افیون ان دنوں غیر قانونی نہیں تھی.بنگال کی اس خوشحالی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ علی وردی خان نے بنگال کے گلی محلوں سے لے سرحدوں تک امن قائم کر دیا تھا.

علی وردی کے دور میں ایک انگریز نے لکھا تھا کہ بنگال میں امن کا یہ عالم ہے کہ ایک تاجر سونے چاندی اور جواہرات بنگال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بغیر کسی خطرے کے صرف دو تین خدمت کاروں کی مدد سے پہنچا سکتے ہیں. نادر شاہ ایرانی نے دہلی کو اس بری طرح سے لوٹا کہ مغل دربار کی شان و شوکت خاک میں مل گئی.

History Of Bangaal Part 3

مزید نقصان یہ ہوا کہ مغل دربار سے وابستہ بہت سے فوجی افسران اور فنکار مستقبل سے مایوس ہو کر بنگال چلے آئے کیونکہ یہاں امن تھا یہ فنکار اور جہاندیدہ لوگ علی وردی کے درباریوں میں شامل ہو گئے.

BangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaal

-Advertisement-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *