bangaal

History Of Bangaal Part 11

-Advertisement-

تاریخ بنگال

History Of Bangaal Part 11

ان کے اس ردعمل نے نہ صرف ان کے درباریوں کو بلکہ لارڈ کلائیو کو بھی حیران کر کے رکھ دیا. پانچ فروری کے صبح ہونے والے حملے کے محض چار روز بعد نو فروری کو نواب سراج الدولہ نے لارڈ کرائف کے ساتھ معاہدہ علی نگر پر دستخط کر دیے.اس معاہدے کو علی نگر معاہدے کا نام اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ نواب سراج الدولہ نے کلکتہ کو راجرڈریک سے چھیننے کے بعد اس کا یہی نام رکھا تھا. تو اب معاہدہ علی نگر ہو گیا تھا اور اس کی شرائط سراج الدولہ نے تسلیم کیں.

معاہدے کے مطابق انگریزوں نے سراج الدولہ سے منوا لیا کہ ان پر ہر قسم کا ٹیکس معاف کر دیا جائے گا. انہیں اپنی فیکٹریاں قلعوں کی طرز پر بنانے کی اجازت ہوگی وہ اپنا ذاتی ٹیکسال لگا کر سکے ڈھال سکیں گے. کلکتہ ان کا قبضہ تسلیم کیا جائے گا. نواب و بنگال ان کی تجارت میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے.

-Advertisement-

 

-Advertisement-

کلکتہ پر حملے سے ہونے والے نقصان کی تلافی نواب آف بنگال کریں گے بنگال کے کچھ علاقے انگریزوں کو دے دیے جائیں گے تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی وہاں کے عوام پر ٹیکس لگا کر اپنے مبینہ نقصانات پورے کر سکے.یہ ایک نہایت ہتک آمیز معاہدہ تھا جو عموما فاتح فوج مفتوح فوج کے ساتھ کرتی لیکن حیران کن طور پر نواب سراج الدولہ نے یہ تمام مطالبے من و عن تسلیم کر لیے.

-Advertisement-

Join Us On Telegram

یہ سب شرائط ماننے کے بدلے کیا آپ جانتے ہیں کہ نواب سراج الدولہ نے انگریزوں سے اپنا کیا مطالبہ منوایا صرف ایک? وہ یہ کہ کلکتہ کا سابق گورنر راجر ڈریک کبھی واپس نہیں آئے گا. ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے یہ شرط کوئی شرط ہی نہیں تھی سو انہوں نے بخوشی قبول کر لی.

دوستوں یہ معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے آف بنگال کا مکمل سرینڈر تھا. یوں لگتا تھا انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہار مان لی ہے. ہو سکتا ہے معاہدہ علی نگر کرتے ہوئے نواب سراج الدولہ کے سامنے اپنے نانا اور پیش راؤ نواب علی وردی کی وہ نصیحت ہو جس میں انہوں نے یورپی اقوام کو شہد کی مکھیوں کے چھتے سے تشبیہہ دی تھی.

اور ان سے محتاط فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی تھی. اب نواب سراج الدولہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے انگریز تو دراصل واقعی مکھیوں کے چھتے کی طرح ہے. سو ممکن ہے انہوں نے بنگال میں امن قائم کرنے کے لیے اور انگریزوں کو ان کی ڈومین یعنی تجارت تک محدود رکھنے کے لیے یہ سب شرائط تسلیم کر لی ہوں تاکہ وہ جنگ کو کلکتہ سے آگے پھیلنے سے روک سکیں.

لیکن ان کی یہی کوشش ان کی سب سے بڑی غلط فہمی اور غلطی ثابت ہوئی. اس معاہدے سے ان کا اقتدار مضبوط ہونے کے بجائے الٹا کمزور ہوا. نواب سراج الدولہ کواحساس نہیں تھا کہ دشمن کے سامنے کمزوری دکھانا دشمن کو بڑے حملے کی دعوت دینا ہوتا ہے.

علی نگر معاہدے میں انہوں نے جو کمزوری دکھائی تھی اور جس طرح سرینڈر کیا تھا اس کا اثر سراج الدولہ کی توقع سے کہیں زیادہ منفی ثابت ہوا. اس معاہدے سے نواب کے تمام سازشی درباریوں اور طاقت کے تمام مراکز کو یہ تاثر ملا کہ نواب سراج الدولہ ایک کمزور حکمران ہیں اور ان کا اقتدار دشمنوں کا مقابلہ کرنے صلاحیت کھو بیٹھا ہے.

چنانچہ ان کے خلاف اندر ہی اندر محلاتی سازشوں کی ایک نئی کھچڑی پکنے لگی. سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر تو پہلے ہی اقتدار پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے. جب انہوں نے دیکھا کہ سراج الدولہ انگریزوں سے دب گئے ہیں تو وہ بھی نواب کو ہٹانے کی نئی پلاننگ کرنے لگے.

اپنی اس پلاننگ میں اب وہ تنہا نہیں تھے کیونکہ سراج الدولہ سے ناراض بہت سے درباری در پردہ میر جعفر کے ساتھ ملتے جا رہے تھے. ادھر سراج الدولہ کو بھی شدید احساس تھا کہ کلکتہ کی اس ناکام مہم سے درباریوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کا موقع مل گیا ہے. چنانچہ انہوں نے بھی سازشوں کی کھڑی نگرانی شروع کر دی.

جن لوگوں پر انہیں دھوکہ دہی کا شبہ تھا انہیں اہم عہدوں سے ہٹا کر وہاں اپنے وفاداروں کو تعینات کر دیا گیا. اس کے علاوہ ایک موقع پر نواب سراج الدولہ میر جعفر سے بھی اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے میر جعفر کو خبردار کرنے کے لیے ان کے گھر کے سامنےتوپ نصب کروا دی.

میر جعفر سراج الدولہ سے اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انہوں نے کافی عرصے کے لیے دربار میں جانا ہی چھوڑ دیا. اس سب کے باوجود سراج الدولہ کو آخر وقت تک یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ میر جعفر انہیں دھوکہ دینے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار بیٹھے ہیں? اس لاعلمی کا نتیجہ تھا کہ کچھ عرصے بعد میر جعفر کی دربار میں پرانی حیثیت بحال ہوگئی اور سراج الدولہ کے خلاف سازشی ٹولے کو داؤدکھانے کا موقع مل گیا.

چند ماہ کے اندر اندر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نواب سراج الدولہ کے زیادہ تر درباری ان کے خلاف ہو چکے تھے اور میر جعفر کے ساتھ مل چکے تھے. ان لوگوں کے ساتھ ملنے سے میر جعفر کی طاقت اب اور بھی بڑھ گئی تھی.اب وہ جلد از جلد نواب سراج الدولہ کو راستے سے ہٹا کر اقتدار حاصل کرنے کے لیے بے چین تھے.

میر جعفر یہ بھانپ رہے تھے کہ انگریز بنگال میں نواب سے بڑی طاقت بن چکے ہیں اگر اقتدار حاصل کرنا ہے تو ان سے ہاتھ ملانا بہت ضروری ہے. اس صورت حال کو انگریزوں اور میر جعفر کے علاوہ ایک تیسرا کھلاڑی بھی دیکھ رہا تھا. یہ کھلاڑی کب سے نواب کا تختہ الٹنے کے لیے بے چین تھا بس موقع کا منتظر تھا.

History Of Bangaal Part 1

اسے یہاں یہ موقع ملنے جا رہا تھا لیکن دوستوں یہ تیسرا کھلاڑی تھا کون? ایک پالکی جس نے دلہنیں یا امیر مسلمان گھرانوں کی پردہ دار خواتین سفر کرتی تھیں. ایک دن میر جعفر کے دروازے پر آ کر رک گئیں. اس پالکی نے ہندوستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا. اس پالکی میں کون تھا?

bangaalbangaalbangaalbangaalbangaalbangaalbangaalbangaalbangaal

-Advertisement-

1 thought on “History Of Bangaal Part 11”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *