Bangaal

History Of Bangaal Part 10

-Advertisement-

تاریخ بنگال

History Of Bangaal Part 10

سراج الدولہ نے ان الچیوں سے ملنے سے انکار کر دیا. لیکن دوستوں یہ ایلچی نہیں دراصل جاسوس تھے اور انہیں سراج الدولہ سے ملاقات میں ویسے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی. وہ صرف سراج الدولہ کے فوجی دستوں کی ترتیب اور ان کے خیموں وغیرہ کا جائزہ لینے کے لیے آئے وہ جائزہ انہوں نے لے لیا اور واپس چلے گئے. انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا واپسی پر اس کا نقشہ لارڈ کلائیو سے شیئر کر دیا.

ان جاسوسوں سے ملنے والی معلومات سےلارڈ کلائیو کو اپنا پلان فائنل کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی. دوستوں پانچ فروری کی رات سورج نکلنے سے کافی پہلے فورٹ ویلیم سے کچھ کشتیاں نکلیں اور دریائے ہوگالی میں تیرتی ہوئی دھند میں غائب ہوگئی. کشتیوں میں تقریبا تیرہ سو انگریز اورہندوستانی سپاہی سوار تھے جن کے ساتھ لارڈ کلائیو بھی تھے.

-Advertisement-

Join Us On Telegram

یہ کشتیاں شہر سے کچھ دور جا کر دریا کے کنارے رک گئیں. انگریز سپاہی باہر نکلے اور خاموشی سے واپس شہر کی طرف چل پڑے. کچھ ہی دیر میں وہ شہر کے باہر نواب سراج الدولہ کے کیمپ کے بالکل پیچھے پہنچ چکے تھے. نواب کو کلکتہ کے قریب پہنچے صرف ایک روز ہوا تھا طویل سفر سے تھکے ہارے فوجی سرد رات میں گرم بستروں میں سوئے آرام کر رہے تھے.

-Advertisement-

نیند کے مزے لے رہے تھے. کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دشمن اس وقت ان کے اتنا قریب پہنچ سکتا ہے. پورے کیمپ کو پراسرار خاموشی دھند اور اندھیرے نے جکڑا ہوا تھا. پھر اس سرد خاموشی کو فائرنگ کی آواز نے توڑ دیا.

-Advertisement-

فضاء توپ کی گن گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجنے لگی اور اس سے پہلے کہ سوئے ہوئے بنگالی سپاہی بیدار ہو کر من کا مقابلہ کرتے انگریز اور ان کے ہندوستانی سپاہی ان پر ٹوٹ پڑے. اور آن کی آن میں درجنوں بنگالی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. نواب کے کیمپ میں ہلچل مچ چکی تھی ہر طرف شور قیامت برپا تھا. کیمپ میں موجود ہاتھی گھوڑے بدک چکے تھے.

فوجی ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر آوازیں دے رہے تھے۔اگرچہ بنگالی فوج جلد ہی گئی اور اس نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کاروائی شروع کر دی مگر دھند اور اندھیرے کی وجہ سے دوست اور دشمن میں تمیز کرنا ناممکن ہو چکا تھا. یہی وجہ تھی کہ حملہ آور بڑھتے بڑھتے نواب کے کیمپ کے قریب پہنچ گئے. یوں لگتا تھا کہ لارڈ کلائیو کا منصوبہ بھی کامیاب ہو جائے گا اور وہ نواب کو گرفتار یا اغوا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.

لیکن پھر یوں ہوا کہ وہی دھند جس نےلارڈ کلائیو کو اچانک حملہ کرنے میں مدد دی تھی دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواب سراج الدولہ انگریزوں کو چکما دے کر نکل گئے. نواب آف بنگال دھند میں چھپتے چھپاتے انگریزوں کے ہاتھ سے کوسوں دور جا چکے تھے. انگریزوں کا مشن ناکام ہو چکا تھا اور اب انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے تھے کیونکہ اب دن نکلنے کا وقت ہو رہا تھا.

دھند چھٹ رہی تھی اورلارڈ کلائیو کی زندگی سورج کی چند کرنوں کی مرہون منت تھی. اگر صبح ہو جاتی دھند چھٹ جاتی تو ہزاروں کی تعداد میں پھیلی بنگالی فوج ان کے مٹھی بھر سپاہیوں کو گھیر کر کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل ڈالتی. چنانچہ ناکامی کے باوجود انہوں نے دھند چھٹنے سے پہلے ہی اپنے فوجیوں کو واپسی کا حکم دے دیا.

اس وقت لارڈ کلائیو کے فوجی کلکتہ شہر سے زیادہ دور نہیں تھے سو وہ آسانی سے وہاں موجود خندق پار کر کے واپس فورٹ ویلیم میں داخل ہو گئے اور لڑائی ختم ہوگئی.اگرچہ لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کی فوج پر بہت زبردست حملہ کیا تھا لیکن ان کے پوائنٹ آف ویو سے یہ ایک ناکام حملہ تھا. نواب کو شہ مات نہیں ہوئی تھی وہ نہ صرف یہ کہ نواب کو گرفتار یا اغوا نہیں کر سکے تھے بلکہ ان کے اپنے ڈیڑھ سو سپاہی بھی مارے گئے تھے.

ان کے پاس فوج کی تعداد پہلے ہی بہت کم تھی اس لیے ایک ایک سپاہی کی جان ان کے لیے قیمتی تھی. تین ہزار کے لگ فوجیوں میں سے ڈیڑھ سو کا نقصان ان کے لیے بڑا نقصان تھا اور وہ بھی بے مقصد کیونکہ اس حملے سے کوئی سٹریٹجیک فائدہ انہیں نہیں ملا تھا.لارڈ کلائیو فورٹ ویلیم میں بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے تھے.

اس لڑائی میں نواب سراج الدولہ کے چھ سو کے لگ بھگ سپاہی مارے گئے. لیکن ساٹھ ہزار فوجیوں میں سے چھ سو فوجیوں کا مارا جانا ناقابل تلافی نقصان نہیں تھا. ان کی فوج اب بھی بہت طاقتور تھی. اگر دن کی روشنی پھیلنے کے بعد نواب سراج الدولہ فورٹ ویلیم پر حملہ کر دیتے. پوری طاقت سے وار کر دیتے. تو شاید لارڈ کلائیو بھی سرینڈر کرنے یا بھاگنے پر مجبور ہو جاتے.

لیکن اس موقع پر کچھ ایسا ہوا جولارڈ کلائیو کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا. ہوا یہ کہ نواب سراج الدولہ اس حملے سے بری طرح چونک گئے. گھیرے میں آئے ہوئے چھوٹے سے دشمن سے انہیں اس قدر زبردست حملے کی توقع نہیں پھر جس طرح دشمن ان کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا یہ بھی ان کے لیے ایک غیر متوقع واقعہ تھا. یہی وجہ تھی کہ اب انہیں اپنی سیکیورٹی کی فکر لاحق ہو چکی تھی.

چنانچہ انہوں نے دشمن پر فوری بڑا حملہ کرنے کے بجائے پہلے کسی محفوظ مقام پر پہنچنے کا فیصلہ کیا.انہوں نے اپنا کیمپ اوکھاڑا اور کلکتہ سے دس میل دور جا کر نیا کیمپ لگا لیا. لیکن یہ کیمپ لگانے کا مقصد کلکتہ پر دوبارہ حملے کی تیار نہیں تھا بلکہ وہ یہاں رہ کر انگریزوں سے مذاکرات کے ذریعے حالات بہتر کرنا چاہتے تھے.

History Of Bangaal Part 11

نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کی فائر پاور اور جنگی ٹیکنیکس کا نظارہ قریب سے دیکھ لیا تھا اور اس کے بعد وہ سمجھ گئے تھے کہ اب زندگی اور سلطنت داؤ پر لگانے سے کافی بہتر ہے کہ کلکتہ انگریزوں ہی کے حوالے کر دیا جائے اور باقی بنگال کو بچا لیا جائے. چنانچہ اپنے نئے کیمپ میں بیٹھ کر انہوں نے انگریزوں بات چیت کا آغاز کیا اور حیرت انگیز طور پر انگریزوں کی ہر شرط ماننے پر تیار ہوگئے.

BangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaalBangaal

-Advertisement-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *